جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

نسیم انجم  اتوار 16 جنوری 2022
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ان دنوں پوری دنیا سخت مصیبت میں مبتلا ہے اومی کرون وائرس کے ساتھ دوسرے وائرس کا شامل ہونا بھی بڑی اذیت یا عذاب کا پیش خیمہ ہے، پاکستان بھی وبائی بیماری کی لپیٹ میں ہے لیکن دوسرے ملکوں سے نسبتاً کم۔ لیکن پاکستان کو دوسرے معاشی، تخریبی مسائل بھی درپیش ہیں، حادثات اور سانحات موت کے منہ میں دھکیلتے ہوئے ہر روز منظر عام پر آتے ہیں۔

پہلے سال کا پہلا درد ناک، عبرت ناک اور شرم ناک واقعہ ’’مری‘‘ کا ہے۔ حکومت خوش تھی کہ سیاحوں کی تعداد کے اعتبار سے معیشت میں اضافہ ہوگا لیکن منتظمین کی لاپرواہی اور سیاحوں کی ناقص حکمت عملی کے باعث اتنا بڑا حادثہ پیش آگیا، جدید ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے تمام حالات کے ساتھ موسم کے تیور سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے لیکن تمام حفاظتی تدابیر کو بالائے طاق رکھ کر اس جگہ جانے کے لیے روانہ ہوگئے جہاں موت رقص میں اور اپنے نوکیلے پنجے گاڑنے کے لیے تیار تھی۔

برف باری دیکھنے کے شوقین حضرات کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ آج طوفان آئے گا لیکن موت کا وقت اور جگہ تو معین تھی لیکن اس کے باوجود ایک جم غفیر جو کہ ایک لاکھ پچیس ہزار گاڑیوں پر مشتمل تھا، پہنچ گیا۔ خوش و خرم اور جوش و خروش کے ساتھ مع فیملی کے لوگ برف کی وادی میں اتر گئے۔

افسوس ان کا کوئی مددگار نہ بنا بلکہ ہوٹل مالکان نے لوٹ مار شروع کردی اور جن ہوٹلوں کا کرایہ محض تین ہزار یا پانچ ہزار تھا اسے بڑھا کر پچاس ہزار کردیا گیا۔ ہائے رے پیسے کی ہوس! دین جائے، ایمان جائے، جنت سے دوری ہو جائے لیکن کفن چور اپنا گھناؤنا چہرہ اپنے اعمال کے ساتھ سامنے لے آتے ہیں۔ برف میں دھنسی ہوئی گاڑیوں کو نکالنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اس چین کہ جس کی قیمت عام دنوں میں تین سو یا پانچ سو تھی وہی چین 5000 روپے میں فروخت ہو رہی تھی۔ لوٹ مار کرنے والے دھکا لگانے کے لیے تیار نہیں تھے بلکہ بہ ضد تھے کہ سیاح ان سے چین خرید کر ان کے دھندے کو تقویت بخشیں۔

کیا ہم ایسے لوگوں کو مسلمان کہہ سکتے ہیں؟ جو زلزلہ آئے، طوفان آئے یا کوئی اور حادثہ ہو۔ یہ قوم ہر طرح سے اپنے نفع پر نظر رکھتی ہے۔ لوگوں کی امداد کے بارے میں سوچنا ہرگز نہیں چاہتی ہے، یہ تو مردہ عورتوں کے ہاتھوں سے کنگن حاصل کرنے کے لیے ہاتھ ہی کاٹ دیتی ہے۔ برسات میں ٹرانسپورٹ کا کرایہ بڑھا دیتی ہے اور اناج کو ذخیرہ کرکے رکھتی ہے خواہ اس میں کیڑا لگ جائے لیکن غریب کے منہ میں نہ جائے۔ ہر رمضان کے لیے پہلے ہی سے تیاری کرلیتی ہے اور ایک مہینہ گرانی میں اضافہ کرکے خوب کماتی ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی ساڑھے تین برس گزرنے کے باوجود نظام نہیں بدلا، سزائیں نہیں دیں، جیسا چل رہا تھا ویسا ہی موجود ہے۔

وزیر اعظم اور ان کے وزرا معاشرتی خامیوں اور عوام کے استحصال پر نظر رکھتے تو دوسرے واقعات کے ساتھ مری کا واقعہ بھی ہرگز پیش نہ آتا ،گزشتہ حکومت نے مری میں پارکنگ پلازہ بنانے کی کوشش کی تھی جس پر ایک ارب کا خرچہ درکار تھا جو ادا کر دیا گیا تھا لیکن پلازہ بننے کی نوبت نہ آسکی۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا پہلا فرض تھا کہ پارکنگ پلازہ کے بارے میں معلومات کرتے کہ آیا وہ پیسہ کس کی جیب میں گیا اور پھر اس کی تعمیر اور سیاحوں کی آمد پر ان کے لیے سہولتیں مہیا کرتے تاکہ پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔

مری کے واقعے نے لوگوں کے دلوں کو ہلا دیا کئی قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع معمولی بات تو نہیں، ہر چینل اور زبان زدعام ان کی اموات کا ذکر ہو رہا ہے، کوئی اس بات پر بھی غور کرتا کہ مرنے والے جن میں بچے، عورتیں، مرد سب ہی شامل تھے کس اذیت اور بے بسی کا شکار ہوئے، چاروں طرف برف ہی برف، لوگوں کی دل خراش چیخیں اور موت کی دستک۔ برف کا لباس اور بستر ایک منٹ کے لیے ہم سب ظالم و بے قصور اس بات کو مدنظر رکھیں اگر ان کی جگہ پیسہ بٹورنے والے یا دوسرے لوگ ہوتے کیا گزرتی؟

ہلاکتوں کی بہت سی وجوہات سامنے آئی ہیں۔ ایک خاص وجہ کاربن مونو آکسائیڈ ہے جس کی کوئی بو نہیں ہوتی، گاڑی کا انجن آن ہو اور اس کا ایگزاسٹ اگر بند ہو جائے تو گیس کو باہر جانے کا راستہ نہیں ملتا، پہلے بے ہوشی طاری ہوتی ہے اور چند منٹوں میں ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔ مری کے واقع میں ایسا ہی ہوا23 لوگ اس بے بو گیس کی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوگئے، لیکن انتظامیہ کے کان پر جوں نہ رینگی نہ ہی ندامت ہوئی اور نہ ہی حادثے کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرکے انھیں حراست میں لیا جا رہا ہے، بس معمولی سی پوچھ گچھ اور برائے نام کاغذی کارروائی کے بعد سب آزاد ہوں گے ہمیشہ کی طرح۔

انسانی جانوں سے کھیلنا اب عام ہو چکا ہے، جس کو چاہیں انفرادی یا اجتماعی طور پر قتل کردیں، اغوا کرلیں، ڈاکے، چوری کی وارداتیں عام ہیں، شادیوں میں فائرنگ کے واقعات نے بے قصور لوگوں کے گھروں میں قیامت بپا کردی ہے، معصوم بچے ہوائی فائرنگ سے قتل کردیے جاتے ہیں لیکن قانون بک جاتا ہے، پولیس رشوت لے کر قاتلوں کو چھوڑ دیتی ہے، ہمارے ملک میں ہر چیز بکاؤ ہے، بس جیب میں پیسہ ہونا چاہیے۔

عزت، شہرت، خوشی، زمین جائیداد، عورت سب کچھ بڑی آسانی کے ساتھ خریدا جا سکتا ہے اور یہ کام آج سے نہیں اس وقت سے ہو رہا ہے جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا اور محب وطن، دیانت دار پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو مجمع میں قتل کردیا گیا تھا، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ اس کے بعد تو حالات ایسے خراب ہوئے کہ آج تک صحیح نہ ہو سکے بلکہ معاشرہ مزید زوال کی طرف بڑھتا چلا گیا اور اب تو یہ عالم ہے کہ ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے۔ لیکن ان تمام حالات کے باوجود دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں جن کی ایک نہیں بے شمار مثالیں ہیں۔

چند سال قبل پنجاب سے کراچی آنے والی تیزگام ایکسپریس سندھ کے ریگستان میں خراب ہوگئی، جولائی کا مہینہ تھا، چلچلاتی دھوپ اور ٹرین کے روانہ ہونے کا انتظار ۔۔۔۔ کھانے پینے کی اشیا ختم ہونے پر آگئیں، لیکن جناب! اس سے پہلے کوئی جانی نقصان ہوتا، قریبی دیہات سے دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ آگئے، جن کے ہاتھوں میں پانی کے کولر، کھانے کی دیگیں اور دیگر اشیا خور و نوش تھیں۔

ذرا سی دیر میں مایوسی امید میں اور موت زیست میں بدل گئی، سب کے چہرے ہشاش بشاش ہوگئے، لوگوں نے ان چیزوں کی قیمت بھی دینی چاہی لیکن ان اعلیٰ ظرف اور کشادہ دل کے مالک لوگوں نے لینے سے انکار کردیا، ان کا یہ ایثار انسانیت کی خدمت اور محبت کا صلہ اللہ دونوں جہانوں میں عطا فرمائے گا۔ کراچی کی سڑکوں پر اگر کسی کی گاڑی خراب ہو جائے تو پانچ دس نوجوان بھاگے دوڑے چلے آتے ہیں گویا ہر دم مدد کرنے کے جذبے سے سرشار۔ اسی طرح کوئی بھی حادثہ پیش آجائے بلا اجرت کے سب سے پہلے یہی لوگ پیش پیش رہتے ہیں۔ بے شک ان ہی اچھے لوگوں کے دم سے دنیا آباد ہے۔ انسانیت سوز مظالم کو دیکھ کر بے اختیار یہ  شعر لبوں پر آجاتا ہے۔

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔