بھارتی مسیحیوں پر کڑکتی ہندو بنیاد پرستوں کی بجلیاں

تنویر قیصر شاہد  پير 17 جنوری 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بھارتی سیکولرازم کا چہرہ اب مسخ ہو چکا ہے۔ مقتدر اور بنیاد پرست ہندو جماعتوں نے خیال کررکھا ہے کہ بھارتی غیر ہندوؤں اور اقلیتوں پر تشدد ڈھانا ہی اُن کا فرضِ اولین ہے۔

بھارتی مسلمان اور بھارتی مسیحی یکساں طور پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے طاقتور اور مقتدر غنڈوں کے ہاتھوں آئے روز ہر قسم کے تشدد اور ذہنی اذیتوں سے گزرتے ہیں۔ بھارت کی ان دونوں مجبور و محبوس اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف مغربی ممالک اور شمالی امریکا میں بھی صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے لیکن نریندر مودی کے چیلے چانٹے کسی احتجاج کو خاطر میں نہیں لارہے۔

چند ہفتے قبل ،حال ہی میں گزرے کرسمس کے دوران، بھارتی مسیحی برادری سرکاری سطح پر بھی تشدد اور ذہنی اذیتوں سے گزری ہے۔بھارت کے کئی بڑے شہروں میں بروئے کار معروفِ عالم مسیحی فلاحی ادارے کے تمام فنڈز اچانک منجمد کر دیے گئے ۔  آنجہانی مدر ٹریسا، کے نام اور نگرانی میں چلنے والے فلاحی اداروں کے فنڈز بند کر دیے۔ اس غیر انسانی روئیے اور فیصلے پر ہر شخص انگشت بدنداں ہے۔

کئی عالمی شہرت یافتہ کتابوں کے مصنف مشہور بھارتی دانشور اور انڈین پارلیمنٹ کے رکن، ششی تھرور، نے اپنی ٹویٹ میں یوں لکھا: ’’ حقیقتاً یہ اقدام حیران کن اور دل دہلا دینے والا ہے۔ جب مسیحی آنجہانی مدر ٹریسا کو بے پناہ انسانی خدمات کے صلے میں نوبل انعام ملتا ہے تو انڈیا خوشی مناتا ہے۔ حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ جب انھی مدر ٹریسا کا ادارہ غریبوں اور لاچاروں کی دستگیری کرتا ہے تو مودی حکومت اس ادارے کے فنڈز پر کلہاڑی چلا دیتی ہے ۔ لعنت ہے ایسے فیصلوں پر!۔‘‘

مغربی بنگال کی مشہور وزیر اعلیٰ محترمہ ممتا بینرجی، جو اَب چوتھی بار وزیر اعلیٰ منتخب ہُوئی ہیں ، نے بھی ٹویٹ کے ذریعے مودی کے اس اقدام کی ان الفاظ میں مذمت کی ہے :’’ کرسمس کے پُر مسرت اور مقدس ایام کے دوران بھارت بھر میں بروئے کار مدرٹریسا کے فلاحی مشنری ادارے کے سبھی بینک اکاؤنٹس منجمد کرنا ایک ظالمانہ اور نہائت غیر انسانی فیصلہ ہے ۔ قانون کی حاکمیت اول درجہ رکھتی ہے لیکن فلاحِ انسانیت کی راہ میں رکارٹیں کھڑی کرنا ایک گھناؤنا جرم ہے۔ مسیحی مدر ٹریسا کے فلاحی ادارے کے فنڈز منجمد کرکے اس سے مستفید ہونے والے ہزاروں مریضوں اور ملازموں پر بہت بڑا ظلم ڈھایا گیا ہے ۔‘‘

یہ بات نوٹ کر نے والی ہے کہ بھارت کی ہر وہ ریاست یا صوبہ جہاں بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت ہے، وہاں وہاں خاص طور پر مسیحیوں اور مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ ان ہندو مغلوب ریاستوں میں اُتر پردیش نمایاں ترین ہے۔ یوگی ادیتیا ناتھ اس کا منتخب وزیر اعلیٰ ہے۔یہ صاحب ہمیشہ زعفرانی رنگ کا دھوتی اور کرتہ پہنتے ہیں۔ یہ لباس خالصتاً بنیاد پرست ہندو مذہبی رہنماؤں کا ہے۔ اُتر پردیش ہی میں حالیہ کرسمس ایام میں بھارتی مسیحیوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔

تقریباً تمام بڑے بڑے بھارتی اخبارات اور ٹی ویز نے بھارتی مسیحیوں کے خلاف بنیاد پرست ہندو جتھوں کی پُر تشدد کارروائیوںکو رپورٹ کیا ہے۔ بھارت کی 7 بڑی ریاستوں میں مسیحیوں کے خلاف دل آزار واقعات نے جنم لیا ہے۔ مثال کے طور پر :اُتر پردیش میں بی جے پی کے مشہور غنڈے اور موالی، اویندر پرتاپ سنگھ عرف اَجّو چوہان، نے سب سے بڑے گرجا گھر کے سامنے جا کر کرسمس خوشی کی مسیحی نشانی ( سانتا کلاز) کو پاؤں تلے روند ڈالا۔

اُس نے اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ بھارتی مسیحیوں اور بھارتی مسیحی لیڈر شپ کے خلاف نعرے لگائے اور دعویٰ کیا: ’’آپ لوگ یہ سانتا کلاز کے ڈرامے کر کے دراصل ہندو نوجوانوں کو عیسائی بنانے کی سازش اور کوشش کرتے ہیں۔‘‘ یہ وہی اویندر پارتاپ سنگھ ہے جو پہلے ’’وشوا ہندو پریشد‘‘ کا پُرجوش لیڈر تھا اور اِسی نے بھارت بھر میں پہلی مرتبہ اعلان کیا تھا کہ ’’مَیں15ہزار بھارتی مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بناؤں گا۔ کیونکہ دراصل یہ کبھی ہندو ہی تھے۔‘‘

اُتر پردیش ہی کے مشہور ہندو مذہبی شہر وارنسی (بنارس) کے ضلع ’’چاند ماری‘‘ میں کرسمس والے دن کئی درجن ہندو بنیاد پرست نوجوان ’’جئے شری رام ‘‘ اور ’’مشنری مردہ باد‘‘ کے نعرے مارتے ہُوئے مقامی مسیحی فلاحی ادارے ( متری دھرم آشرم) پر چڑھ دوڑے۔ سب یہ بھی نعرے لگا رہے تھے: ’’ اب ہم ہندو نوجوانوں کو مسیحی بنانے کی تمہاری سازشوں کو مزید پنپنے نہیں دیں گے۔بہت ہو چکا۔ اگر تم لوگ باز نہ آئے تو بھارت بھر کے مشنری تعلیمی ادارے نذرِ آتش کر دیں گے۔‘‘

اس ادارے کے سربراہ، فادر آنند، نے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کو بتایا:’’ ہمارے ادارے میں آج تک کسی شخص کو ہندو سے مسیحی نہیں بنایا گیا۔ پھر یہ بے بنیاد الزام کا کیا مطلب؟ ہمیں ایسے وقت اذیتیں دی گئی ہیں جب ہم اپنی سالانہ عید منا رہے ہیں ۔‘‘ بھارتی علاقے ’’ہریانہ‘‘ کے چرچ بھی اس کرسمس کے موقع پر زعفرانی کپڑے پہنے نوجوان ہندوؤں کے جتھوں کے تحت حملوں کی زد میں آئے۔ ان جتھوں کی قیادت معروف بھارتی متعصب ہندو مذہبی جماعت ’’بجرنگ دَل‘‘ کے لیڈر ہریش رام کلی کررہے تھے۔

ان لوگوں نے مقامی چرچ کے گیٹ پر ایستادہ یسوع مسیح کا صدیوں پرانا مجسمہ بھی پاش پاش کر ڈالا۔ پولیس کو بلایا گیا لیکن پولیس اُس وقت پہنچی جب جتھہ یہ تباہ کن کارروائی کر کے جا چکا تھا۔ اِسی طرح کا مسیحی مخالف ایک تازہ سانحہ انبالہ میں بھی ہُوا ہے۔ بھارتی مسیحی( بھارتی مسلمانوں کی طرح) بے چارگی اور بے بسی سے ان زیادتیوں کو برداشت کررہے ہیں ۔ بھارتی ہندو سرکار نے تو دانستہ ان واقعات پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ دُنیا چاہے لاکھ احتجاج کرتی رہی !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔