سرکاری نوکری مہنگائی اور تبدیلی سرکار

نئی بھرتیوں میں اقربا پروری کےلیے میرٹ اور قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں


حکومت پنجاب نے ایک کروڑ نوکریوں کا ٹارگٹ پورا کرنے کےلیے نیا کھیل شروع کر رکھا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD: بہاولپور کے دورافتادہ گاؤں کے ایک غریب گھرانے میں رمضان کی پیدائش ہوئی۔ ہوش سنبھالا تو اپنےخاندان کو مالی پریشانیوں میں دھنسا ہوا پایا۔ والدین نے مشکل حالات کے باوجود رمضان کو تعلیم دلوائی تاکہ معاشی حالات میں کچھ بہتری آسکے اور ان کا چشم چراغ بہترین روزگار حاصل کرنے کے بعد آنے والی زندگی کو بہتر طریقے سے گزار سکے۔ 2005 میں اس خاندان کے حالات کچھ بہتر ہوئے جب محکمہ زراعت میں رمضان کو نوکری کی وعید ملی۔ بوریا بستر اٹھایا اور گھر سے سیکڑوں کلومیٹر دور گجرات شہر میں آباد ہوگیا۔

محکمہ زراعت کے ایک منصوبے PIPIP میں رمضان سمیت 1360 افراد کو بھرتی کیا گیا۔ تمام ملازمین نے اس قدر دلجوئی اور لگن سے کام کیا کہ ورلڈ بینک سمیت دیگر کئی بین الاقوامی اداروں کی جانب سے ناصرف اس کو سراہا گیا بلکہ ورلڈ بینک نے ملازمین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس پراجیکٹ کو A کیٹیگری دی۔ انہوں نے اپنے میمورنڈم میں بیان کیا کہ محکمہ زراعت کے اس شعبے میں کام کرنے والے یہ ورکرز مہارت اور تجربے سے لیس ہیں اور ان کی محنت اور کارکردگی اس منصوبے کو مزید بہتر بنانے کےلیے کارآمد ثابت ہوگی۔

ان ملازمین کو مستقل کرنے کی سمری کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہونے کی منتظر ہے جبکہ حکومت کی جانب سے ان ورکرز کو مدت ملازمت میں توسیع کرنے کے بجائے سرخ جھنڈی دکھائی جارہی ہے۔ بزدار حکومت ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ پورا کرنے کی غرض سے نیا اشتہار لانے کی خواہاں ہے جبکہ وہ ملازمین جن پر سرکاری خزانے سے کثیر سرمایہ صرف کیا گیا اور کروڑوں روپوں کی مد میں انہیں ٹریننگ کروائی گئی، انہیں نوکریوں سے برخاست کیا جارہا ہے۔ اس طرح کی حکومتی غفلت اور اقربا پروری معاشرے پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔

سرکاری اداروں میں ملازمت کےلیے حکومت کی جانب سے عمر کی ایک حد مقرر کی گئی ہے۔ میٹرک پاس نوجوان طبقہ 25 سال کی عمر تک سرکاری اداروں میں نوکری کا اہل ہے لیکن اگر اس کو بھرتی کے 10 سال بعد ذاتی مفادات کےلیے ملازمت سے برخاست کردیا جائے تو وہ کسی دوسرے سرکاری ادارے میں نوکری کا اہل نہیں ہوگا۔ یہی معاملات پاکستان کے دیگر کئی سرکاری اداروں میں ملازمین کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔

مندرجہ بالا مشق نہ صرف محکمہ زراعت میں ملازمین پر کی جارہی ہے بلکہ سوئی ناردرن گیس، سوئی سدرن گیس، نادرا، پنجاب فوڈ اتھارٹی، ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی، ضلعی میٹرو پولیٹن کارپوریشنز اور محکمہ صحت سمیت دیگر کئی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین بھی آئے روز سر پر لٹکتی اس تلوار کے خوف میں مبتلا ہیں۔

حکومت پنجاب نے ایک کروڑ نوکریوں کا ٹارگٹ پورا کرنے کےلیے نیا کھیل شروع کر رکھا ہے۔ مختلف سرکاری اداروں میں ڈیلی ویجز کی بنیاد پر بھرتیوں کا اشتہار دیا جاتا ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد ان ملازمین کو نکال کر دوبارہ سے نیا اشتہار جاری کردیا جاتا ہے۔ اسی ضمن میں محکمہ صحت پنجاب کے زیر سایہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ نے 2020 میں ڈینگی کی روک تھام کےلیے سینٹری پٹرول ورکرز رکھے، جنہیں 6 ماہ بعد ملازمت سے برخاست کردیا گیا جبکہ تنخواہ صرف 3 ماہ کی ادا کی گئی تھی۔

سال 2021 کے ماہ اکتوبر میں جب ڈینگی کیسز میں اضافہ ہوا تو دوبارہ سے وزیر صحت پنجاب کو سینٹری پٹرول کی یاد ستائی اور اخبارات میں نئے اشتہارات دے کر نمبر گیم مکمل کیا گیا۔ 3 ماہ قبل ان نششتوں پر رکھے گئے افراد کو 20 جنوری 2022 کو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے جبکہ ان ہی اسامیوں پر چند ماہ بعد پھر سے نیا اشتہار جاری کیا جائے گا۔ ان ملازمین کو روزانہ اجرت کی بنیاد پر رکھا گیا تھا۔ بجٹ 2021-22 میں حکومت کی جانب سے مزدور طبقے کی اجرت ماہانہ 20 ہزار روپے مختص کی گئی، جبکہ ان ملازمین کو 17 ہزار روپے ماہانہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔

پنجاب میں نئی بھرتیوں میں اقربا پروری کےلیے میرٹ اور قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ کچھ سال قبل پنجاب حکومت کے زیر سایہ اداروں میں نئی بھرتیوں پر درخواست دینے کےلیے آن لائن جاب پورٹل کا آغاز کیا گیا تھا۔ صرف اسی پورٹل کے ذریعے ہی درخواست گزار اپنی تفصیلات متعلقہ ادارے تک پہنچا سکتا ہے۔ یہ پورٹل ایک خودکار نظام کے تحت چلتا ہے، کوئی درخواست اس وقت تک جمع نہیں کروائی جاسکتی جب تک مانگی گئی شرائط اور اہلیت پر پورا نہ اترا جائے۔ ان پیچیدہ مراحل سے گزرنے کے بعد امیدواروں کو کوئی رسپانس نہیں دیا جاتا۔ اس معاملے کی سیکریٹری پنجاب سمیت متعلقہ محکموں کو کئی بار شکایات کی گئیں، لیکن تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔

ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ عوام کے جذبات سے کھیلنا بند کریں۔ ڈیلی ویجز اور دیگر ملازمین کو نوکریاں دیے جانے کے کچھ عرصے بعد نکالا جانا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اگر کسی نوجوان کو نوکری سے محض اس لیے نکال دیا جائے کہ اس کے بدلے وزرا یا دیگر افسران کا اپنے قریبی رفقا کو نوازنا مقصود ہو تو یہ اخلاقی گراوٹ کے ساتھ ساتھ اس خاندان کا نہ صرف معاشی قتل ہے بلکہ ناقابل معافی جرم ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے