انارکسٹ فلسفے کا عظیم مفکر جوزیف پرودھون

زبیر رحمٰن  منگل 18 جنوری 2022
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

پیری جوزیف پرودھون 15 جنوری 1809 میں فرانس میں پیدا ہوئے۔ وہ سوشلسٹ سیاست دان، فلسفی، معیشت دان اور انارکسٹوں کے بابائے آدم کہلاتے ہیں۔ انھوں نے انارکسٹ ادب کی تخلیق کی، وہ فیڈرلزم کے حامی تھے۔

1948 کے انقلاب کے بعد وہ فرانس کی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ انھوں نے سماجی برابری کی تھیوری اور ملکیت پر کتابیں لکھیں۔ وہ انفرادی اور سماجی انارکزم کے حامی تھے۔ انھوں نے لاطینی زبان کے چھاپے خانے میں کام شروع کیا۔ 1840 میں ایک کتاب اسی سلسلے میں چھاپی جوکہ فرانس میں بہت مقبول ہوئی۔

یہ کتاب کارل مارکس کے لیے بھی کشش کا باعث بنی۔ مصنف سے مارکس نے رابطہ رکھنا شروع کردیا۔ جس وقت مارکس جلاوطنی میں فرانس میں تھے تو دو ہی شخصیات مشہور تھیں۔ پرودھون اور مارکس۔ انٹرنیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن میں افلاس کا فلسفہ اور فلسفے کا افلاس پر پرودھون اور مارکس میں اختلاف ہوا۔ پرودھون نے کارل گرون کا دفاع کیا جوکہ مارکس کو ناپسند کرتے تھے، وہ پرودھون کی کتابوں کا ترجمہ کرتے تھے۔ پرودھون نے ورکرز کونسل کی حمایت کی اور ساتھ ساتھ انفرادی ورکر کی بھی حمایت کی۔

پھر کسانوں کی حمایت شروع کردی خواہ وہ پرائیویٹ ہو یا سرکاری۔ انھوں نے پرامن سوشل انقلاب کی حمایت کی۔ پرودھون نے انارکی کو اقتدار کے بغیر پروان چڑھانے کی بات کی، انھوں نے نیشنل بینک قائم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ جس میں مفت قرضہ دینے اور تمام لوگوں کو اس کا حصہ دار بنانا چاہتے تھے۔ کامریڈ پرودھون کے انتقال کے بعد انارکسٹ کئی دھڑوں میں بٹ گئے۔ ان کی تخلیق کو باکونن پیترکروپوتکن اور جوسیف ڈیجک نے جاری رکھا۔ غربت کی وجہ سے کم عمری میں پرودھون نے ایک شراب بنانے والی فیکٹری میں بیریل بنانے کا کام شروع کیا۔ کم عمری میں ہی ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔

انھوں نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ مگر انھوں نے اپنی ماں سے 10سال کی عمر میں لکھنا پڑھنا سیکھا۔ ان کی والدہ نے کالج میں داخلہ کروانے کا بندوبست کرلیا تھا مگر بنیادی ضروریات یعنی کتابیں وغیرہ خریدنے کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے کالج میں داخلہ نہیں ہو پایا۔ انھوں نے اسکول کی لائبریری اور باہر کی کتابیں پڑھیں۔ پھر ایک چھاپے خانے میں 1827 میں انٹرن شپ کا کام شروع کردیا۔

بینانکون اس وقت مذہبی تعلیم کا ایک بڑا مرکز تھا۔ اس کے بعد انھوں نے مسیحی مذہبی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا۔ آخر کار انھوں نے تمام مذہبی اصولوں اور دلائل کو رد کردیا۔ (What is Property) ’’ملکیت کیا ہے؟‘‘ نامی کتاب میں انھوں نے مذہب کے موجودہ نظریات کو رد کرتے ہوئے پروٹسٹنٹ کی راہ اپنائی اور نئے نظریے کے حامی ہوگئے۔ 1829 میں وہ چھاپے خانے کے پروف ریڈر بن گئے۔

انھوں نے پروٹسٹنٹ کے لیے مذہبی دلائل دینا شروع کردیے۔ 1829 میں ہی مذہبی اصولوں میں سماجی مسائل کے حامی بن گئے۔ بعدازاں فلسفہ اور سماجی مسائل پر لکھنا پڑھنا شروع کر دیا۔ ان کے دوست گیٹو فلیوٹ کی صحبت میں آ کر ڈی موسٹیگ، ری بیلائز، جین چیکس، روسو، والٹیر اور ڈیئیس ڈیڈے روٹ پر بحث مباحثہ شروع کیا۔ 1830 میں پرودھون جرمن میں کمپوزیئر بن گئے۔ بعدازاں وہ سوئٹزرلینڈ میں اسکول ٹیچر کی نوکری اختیار کی۔ اس دوران فلیٹو نے انھیں مالی مشکلات میں مدد کی پیش کش کی جس میں وہ فلسفے کا مطالعہ کرسکیں۔

اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے پرودھون سوئٹزرلینڈ چلے آئے۔ پرودھون جب سوئٹزرلینڈسے فرانس کے دورے پر گئے تو واپسی میں فیلوٹ کو نہیں دیکھا۔ وہ 1836 میں انتقال کرگئے تھے۔ 1838 میں انھوں نے اکیڈمی آف بینکون میں آرٹیسن کے کام کے لیے درخواست دی۔ ان کی غربت اور کم آمدنی کی وجہ سے انھیں سلیکٹ کرلیا گیا۔ جج حضرات ان کے جوابات اور کام سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھیں ورکنگ آرٹیسن کے طور پر فرانس بلالیا گیا۔

1839 میں پہلی بار انھوں نے فلسفہ اور سیاسی نظریات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے سب سے پہلے صحت، اخلاقیات، خاندان اور شہر کے مابین کیسے تعلقات بحال رکھیں پر مقالہ لکھا۔ اکیڈمی کی جانب سے پہلا کانسی کا تمغہ انعام کے طور پر ملا۔ 1840 میں انھوں نے باقاعدہ اپنی کتاب ’’ملکیت کیا ہے‘‘ شایع کی۔ 1846 میں ’’افلاس کا فلسفہ‘‘ نامی کتاب لکھی یعنی ’’معاشی تضادات کا نظام‘‘۔ بعدازاں اس فلسفے کو باکونن نے تقلید کی اور اجتماعی انارکزم کو پروان چڑھایا۔ باکونن 1868 میں پہلی انٹرنیشنل بنائی۔

جیک چارلس (1767-1855) جو کہ 1789 کا انقلاب فرانس میں شریک کار تھے اور سب سے طویل اوقات سیاست دان تھے۔ 1848-52 تک کے انقلابات میں پرودھون کتابیں لکھنے میں بہت مصروف رہے۔ انھوں نے فرانس کے مزدوروں پر بھی کتاب لکھی۔ 1845 میں ان کی کتاب اسپین میں شایع ہوئی۔ جارج ووٹ کاک کے مطابق جب فرانس کا صدر فیڈرل ڈیموکریٹک ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدر بنا تو پرودھون عالمی طور پر متعارف ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔