’’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘‘

خوشبو غوری  منگل 18 جنوری 2022
ایک ایسا ذہنی دباؤ جس میں ماں اپنے بچوں کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ فوٹو : فائل

ایک ایسا ذہنی دباؤ جس میں ماں اپنے بچوں کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ فوٹو : فائل

بچوں کی پیدائش جہاں خاندان بھر کے لیے خوشی کا پیغام ہوتی ہے، وہیں گھر میں پہلی اولاد کی آمد ماں باپ دونوں ہی کے لیے باعث فخر اور مُسرت ہوتی ہے، لیکن کیا کبھی آپ نے سُنا ہے کہ بچے کی پیدائش پر کبھی ماں یا باپ مایوس، چڑچڑے پن یا کسی عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہو جائیں؟ یا بچے کی پیدائش کا بے چینی سے انتظار کرنے والے ماں، باپ ننھے مہمان کی دنیا میں آمد کے بعد اس کی معصوم شرارتوں سے لطف اندوز ہونے کے بہ جائے ہر وقت بیزار، پریشان، ذہنی تناؤ کا شکار نظر آئیں؟

جی ہاں، دراصل یہ ایک ذہنی مسئلہ یا بیماری ہے، جس کو میڈیکل کی اصطلاح میں ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ (Postpartum Depression) کہا جاتا ہے اور یہ براہ راست بچے کی پیدائش کے عمل سے منسلک ہے۔ یہ ماں یا باپ دونوں میں سے کسی کو بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس بیماری کا شکار زیادہ تر نئی ماں بننے والی خواتین ہوتی ہیں۔ ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ خواتین میں پائی جانے والی ایسی بیماری ہے، جونہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی خواتین میں ماں بنے کے بعد جنم لینے والی ایک عام کیفیت ہے۔

یہ ڈپریشن کی ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں ماں بننے کے بعد خاتون بہ جائے اپنے ہونے والے بچے کی خوشی منانے اور اس رشتے اور جذبے سے لطف اندوز ہونے کے بہ جائے اُداسی، غصہ، خوف، پریشانی یا پھر دکھ کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہے۔ پاکستان میں نہ صرف عام عوام بلکہ خود بہت خواتین سی بھی اس ڈپریشن کی کیفیت سے نا آشنا ہیں۔

پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے باعث یہ ڈپریشن نہ صرف ماؤں، بلکہ بچوں کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایسی کیفیت میں خاتون خود کو یا ساتھ بچے کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ پاکستان میں اس ڈپریشن کے پھیلاؤ کی شرح 28  فی صد سے 63 فی صد تک ہے۔  بہت سی خواتین اپنے شریک حیات، گھروالوں اور دوستوں کی مدد سے جلد ہی اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کر لیتی ہیں، لیکن اگر یہ ڈپریشن شدت اور طوالت اختیار کر لے، تو اس کے نہ صرف ماں اور بچوں بلکہ پورے خاندان پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

سماجی، ثقافتی اور ماحولیاتی عناصر کے علاوہ بہت سے ایسے عوامل ہیں جو پاکستانی خواتین میں اس بیماری کوپروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم وجہ بچے کی پیدائش کے بعد ماں کے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور سماجی وجوہات ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جسمانی کمزوری، بھوک کی بے ترتیبی، ادھوری نیند، بچے کا خیال نہ رکھ پانا، ذاتی شناخت کھونے کا احساس، شریک حیات کی طرف سے نظر انداز کیے جانا یا پھرضرورت سے زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اس ڈپریشن میں اضافہ کرتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی 13 فی صد خواتین زچگی کے بعد اس قسم کے ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں، جب کہ ترقی پذیر ممالک میں اس کی شرح 20 فی صد ہے۔ لیکن اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں اس بیماری میں مبتلا خواتین کا تناسب 28 فی صد ہے۔ جن میں سے بہت سی خواتین اور حضرات اس کیفیت سے ناآشنا ہوتے ہیں اور ماں بننے کے بعد خاتون کے رویے میں آنے والی تبدیلیوں جیسے جھنجھلاہٹ، چڑچڑاپن یا موڈ کا جلدی جلدی تبدیل ہو جانا یا کسی کام میں دل چسپی نہ لینا، جیسی کیفیت کو عمومی ڈپریشن یا غیر ذمہ داری، بدتمیزی یا بد لحاظی کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اس ڈپریشن یا مایوسی کی ایک وجہ ماؤں پر لڑکے یا لڑکی کی پیدائش کے حوالے سے ذہنی دباؤ بھی ہوتا ہے۔ جہاں لڑکے کی پیدائش کی خواہش اور اس کی تکمیل نہ ہونے کا  ذمہ دار صرف ماں کو ہی سمجھا جاتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ حمل کے بعد سے ہی خواتین کی زیادہ تعداد اس ہی قسم کے نفسیاتی مسائل اورسوچ کا شکار رہتی ہیں جو نہ صرف دوران حمل بلکہ بچے کی پیدائش کے بعد بھی خواتین کے لیے ذہنی پریشانی اور الجھنوں کا باعث ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کے نفسیاتی مسائل کے اعداوشمار اور ریکارڈ مرتب کیے جاتے ہیں اور ماں بننے والی خواتین کا ماہرینِ نفسیات سے نہ صرف باقاعدہ علاج کرایا جاتا ہے، بلکہ خاندان کے افراد بھی ماؤں کو ایسے مسائل سے نکلنے میں اپنا کردار باخوبی نبھاتے ہیں۔

لیکن ہمارے معاشرے میں یہ ایک اہم اورسنجیدہ مسئلہ ہے، جہاں ہم عام طور پر ذہنی نشوونما اور صحت کے مسائل کو سرے سے ہی نظرانداز کرتے ہیں، وہیں ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ جیسے موذی مرض سے ناواقفیت نہ صرف ماں اور بچے، بلکہ پورے خاندان کے لیے کافی پریشان کن ہوتی ہے۔

اس طرح کی کیفیت یا ڈپریشن میں مبتلا ماں باپ کے بچوں کی شخصیت بھی بُری طرح متاثر ہوتی ہے اور بچے بھی بچپن ہی سے ڈپریشن اور غیر متوازن شخصیت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ ڈپریشن یا ’پوسٹ پارٹم‘ میں مبتلا والدین کی جھنجھلاہٹ اور چڑچڑے پن کا براہ راست شکار بچے ہی ہوتے ہیں اور وہ اپنا غصہ بچوں پر اتارتے ہیں۔ یہ امر بچے کی ذہنی نشوونما اور صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اور ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں والدین کا بچوں کوجسمانی نقصان پہنچانا یا ان کی جان لینا جیسے واقعات تک رونما ہو سکتے ہیں۔

عموماً ماہر نفسیات اس قسم کے ڈپریشن سے نکلنے کے لیے ذہنی سکون یا ہارمونل کنٹرول کی مختلف ادویات تجویز کرتے ہیں، لیکن یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ ماں باپ بننے والے نئے جوڑوں کی راہ نمائی کی جائے۔ سب سے پہلے تو ان کو اس بیماری کا ادراک ہونا ضروری ہے۔ مریض جب تک خود کو لاحق بیماری کے بارے میں آگاہ نہیں ہوگا، اس کا علاج کرانے پر بھی رضا مند نہیں ہوگا۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ کا علاج مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے، جو کہ اس بات پر منحصر ہے کہ علامات کی نوعیت کیا ہے اور وہ کتنی شدید ہیں۔ اس ڈپریشن کا علاج اینٹی اینزائٹی یا اینٹی ڈپریشن ادویات کے علاوہ سائیکو تھراپی، جذباتی راہ نمائی اور آگاہی کے لیے سپورٹ گروپ میں شرکت کر کے بھی ممکن ہے، جب کہ ’پوسٹ پارٹم سائیکوسس‘ کی صورت میں، سائیکوسس کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوائیں عام طور پراستعمال کی جاتی ہیں۔

لیکن علاج کے تمام نسخوں میں سب سے بہتر والدین کا ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھیرانے کے بہ جائے  محبت، دوستی، راہ نمائی، ایک دوسرے کی معاونت، مسائل کو سمجھنا اور خلوص سب سے اہم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔