سیاست میں مقابلہ……

لطیف چوہدری  ہفتہ 15 فروری 2014
latifch910@yahoo.com

[email protected]

مجھے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ہمراہ بذریعہ ہیلی کاپٹر لاہور سے نندی پورپاور کی سائٹ تک جانے کا موقع ملا ہے‘ پروگرام کے مطابق جمعرات کی صبح ساڑھے آٹھ بجے لاہور کے والٹن ایئر پورٹ سے روانگی طے تھی‘ صحافیوں کے لیے سب سے مشکل کام صبح جلدی اٹھنا ہوتا ہے ۔ سو صبح جلدی اٹھا‘ وزیراعلیٰ کے پروٹوکول آفس سے ڈرائیور دفتر پہنچا اور میں سوا آٹھ بجے والٹن ایئر پورٹ پہنچ گیا ۔وہاں پرویز بشیر‘ مبشر حسن اور شعیب بن عزیز بھی موجود تھے‘ شعیب بن عزیز افسرتو ہیں ہی لیکن اصل میں وہ علمی اور ادبی شخصیت ہیں‘ ان سے باتوں کا بڑا مزہ آیا‘ سیکریٹری انفارمیشن مومن آغا نے بھی بڑا خیال رکھا۔ اس مختصر سے سفر کے دوران میاں صاحب کو قریب سے دیکھا‘ سنا اور ان سے باتیں بھی کیں‘ میں ذاتی طور پر مسلم لیگ ن کے سیاسی فکر و فلسفے سے بہت زیادہ اتفاق نہیں کرتا لیکن پروفیشنل صحافت کا تقاضا ہے کہ کسی حکمران یا سیاسی جماعت میں جو اچھائی یا خوبی ہو اسے تسلیم کرنے میں کنجوسی یا بدنیتی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

جمہوریت کا سبق بھی یہی ہے کہ سیاسی نظریات خواہ کچھ بھی ہوں‘ ملک اور قوم کے مفاد کو مقدم رکھنا ضروری ہے۔ سب سیاسی جماعتوں کا یک نکاتی ایجنڈا ملک و قوم کی فلاح ہونا چاہیے۔ باقی سیاسی نظریات تو صرف اپنی اپنی شناخت کے لیے ہوتے ہیں۔ میں نے لاہور میں میٹرو بس کا منصوبہ پایا تکمیل تک پہنچتے دیکھا ہے۔اس بس منصوبے نے لاہور کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے‘ اب لاہوریے جن میں‘ میں بھی شامل ہوں فخر سے کہتے ہیں کہ ان کے شہر میں بھی یورپی شہروں جیسا منظر نظر آتا ہے‘ ملک کے دوسرے شہروں میں ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا۔ میرے کئی دوست کراچی اور پشاور سے لاہور آتے ہیں تو سب سے پہلے میٹرو بس کا ہی پوچھتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان شہروں میں بھی لاہور کی باتیں ہوتی ہیں جو مجھے بڑی اچھی لگتی ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے لاہور میں رہنا کوئی فخر کی بات ہو۔

نندی پور جا کر وہاں جو کچھ دیکھا اور سنا وہ واقعی حیران کن ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جو کاغذات میں تو موجود تھا لیکن زمین پر اس کا نام و نشان نہیں تھا‘ اسے 31 اکتوبر 2013ء کو از سر نو شروع کیا گیا اور ڈھائی تین ماہ کے عرصے میں اسے عملی صورت دینا واقعی ناقابل یقین ہے۔جب ہم وہاں پہنچے اور بریفنگ میں یہ خوشخبری سنائی گئی کہ مئی میں اس پراجیکٹ کی پہلی ٹربائن مکمل طور پر آپریشنل ہو جائے گی تو خوشی کا احساس ہوا کہ چلو زیادہ نہ سہی کچھ تو بجلی مل جائے گی۔ جس رفتار سے اس منصوبے پر کام ہو رہا ہے اسے سامنے رکھا جائے تو یہ پاور پلانٹ بہت جلد اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام کرنا شروع کر دے گااور ملک کو قریباً ساڑھے چار سو میگاواٹ بجلی مل جائے گی۔ یہ واقعی حیران کن کارنامہ ہے۔ ورنہ ہمارے جیسے ملک میں تو کاغذائی کارروائی میں ہی برسوں لگ جاتے ہیں اور اس کے بعد غیر ملکی دورے شروع ہو جاتے ہیں‘ پراجیکٹ کے نام پر افسر اور ملازم رکھ لیے جاتے ہیں‘ اس قوم کے خون پسینے کی کمائی سے کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں جب کہ منصوبے صرف فائلوں میں ہی دبے رہتے ہیں۔

کام وہ ہوتا ہے‘ جو سب کو نظر آئے‘ باتوں یا وعدوں سے آنکھوں میں دھول تو جھونکی جا سکتی ہے‘ سچ کو نہیں چھپایا نہیں جا سکتا‘ پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں حکمرانوں نے غیر معمولی کام کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی‘ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بیشتر حصے قدیم عہد کے نظام میں زندہ ہیں‘ بجلی کے بحران کو ہی دیکھ لیں‘ آج جو لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے‘ کیا یہ ایک دن یا ایک برس کی غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ ہے؟ نہیں جناب برسوں کی کوتاہیاں جمع ہو کر پہاڑ کی شکل میں ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ پندرہ بیس برس سے ہی بجلی کے بحران کے آثار سامنے آنا شروع ہو گئے تھے‘ آغاز میں ایک دو گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ بڑھتے بڑھتے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے تک پہنچ گئی۔ کالا باغ ڈیم برسوں سے متنازعہ چلا آ رہا ہے‘ اگر اس وقت سے ہی چھوٹے ڈیم‘ چھوٹے تھرمل یونٹ اور شمسی توانائی پر توجہ دی جاتی تو آج ملک اندھیروں میں نہ ڈوبا ہوتا بلکہ بجلی وافر ہوتی۔

ہمارے شہر اور دیہات جگمگ کر رہے ہوتے اور انڈسٹری تباہ نہ ہوتی۔ بجلی وافر ہوتی تو گیس کا بحران بھی محسوس نہ ہوتا لیکن کیا کیا جائے‘ جو بھی مسند اقتدار پر بیٹھا‘ اس نے اپنی ترجیحات میں تعلیم‘ صحت اور انرجی کو کبھی اولیت نہیں دی‘ اگر کوئی چیز پہلی ترجیح میں رہی‘ وہ ذاتی مفاد اور اقربا پروری رہی۔ ان حالات میں اگر وزیراعلیٰ پنجاب سابق حکومت پر گرجتے برستے ہیں تو ایسا کچھ غلط بھی نہیںلگتا۔سچی بات یہ ہے کہ ہم سب کو اپنے اپنے حصے کی غلطیاں اور کوتاہیاں نہ صرف تسلیم کرنی ہوں گی بلکہ اس کا کفارہ بھی ادا کرنا پڑے گا‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پر لاکھ تنقید کریں لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ ان کے دور میں جو منصوبے بنے‘ وہ ریکارڈ مدت میں مکمل ہوئے‘ میرا خیال ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے درمیان بیان بازی یا الزام تراشی نہیں بلکہ کام کا مقابلہ ہونا چاہیے۔

ہمیں دیکھنا ہوگا کہ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی سیاسی جماعتوں نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں عوامی فلاح کے کتنے منصوبے شروع کیے اور کتنے پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ ہمیں آج کے حکومتی سیٹ اپ کو بھی اسی اصول پر پرکھنا چاہیے کہ سندھ میں قائم علی شاہ حکومت نے کیا کارنامے سر انجام دیے‘ خیبر پختونخوا کے پرویز خٹک صاحب نے اپنے صوبے کے عوام کو آرام پہنچانے کے لیے کونسے منصوبے شروع کر کے مکمل کیے‘ بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک صاحب نے کیا کیا اور پنجاب میں میاں شہباز شریف کیسے کام کر رہے ہیں‘ میرا خیال ہے کہ مقابلے کا یہی صحت مند طریقہ ہے اس سے ایک دوسرے سے نفرت نہیں بلکہ رشک کے جذبات بڑھیں گے۔سیاست میں مقابلے کا ایسا صحت مند رجحان پیدا ہو جائے تو بلاشبہ ملکی ترقی کی رفتار کئی گناہ بڑھ جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔