ایران انقلاب کے آئینہ میں

عرفان علی  ہفتہ 15 فروری 2014

میں تین مرتبہ ایران جاچکا ہوں اور ہر مرتبہ اپنی معلومات میں اضافہ کرکے ہی لوٹا۔ وہاں کی سیاست، سفارت، ادب ، ثقافت ، تعلیم، سماج و معیشت کا مشاہدہ کیا تب پتہ چلا کہ علامہ اقبال نے تہران کو عالم مشرق کا جنیوا بنانے کی خواہش کیوں ظاہر کی۔ اس مضمون کے عنوان کے الفاظ میرے نہیں بلکہ ایران کے صوبہ گلستان کے آئمہ جمعہ اہلسنت کا کہنا ہے کہ 22 بہمن یعنی 11 فروری روئے زمیں پر معنوی اسلحے سے لیس حکومت حق کی تجلی کا دن ہے۔ صوبہ خراسان شمالی کے گورنر کے مشیر برائے امور اہلسنت آخوند گلدی کمالی کہتے ہیں کہ ایران کا اسلامی انقلاب بیداری اسلامی کی سب سے بڑی تحریک اور امت اسلامی کی وحدت و بقا کا ضامن ہے۔

ایران کے سنی مسلمانوں میں علمائے دین کے لیے زیادہ تر تین اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ کرد علاقوں میں ماموستا، بلوچ علاقوں میں مولوی اور آخوند اور یہی دونوں اصطلاحات ترکمن علاقوں کے علما کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ ایران کی طاقت ور مجلس خبرگان میں سیستان بلوچستان سے منتخب نمایندے مولوی نذیر احمد اسلامی نے انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی ریلیوں میں عوام کی شرکت کو قومی و اسلامی فریضہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان ریلیوں میں عظیم الشان عوامی شرکت نے دشمنوں کی سازشوں پر ناکامی کی مہر ثبت کردی۔ کردستان سے مجلس خبرگان کے منتخب نمایندے ماموستا عبدالرحمان خدائی ہوں یا بوشہر کے مولوی خلیل عرفہ ہوں، ایرانی قومی اسمبلی مجلس شورائے اسلامی میں سنی بلاک کے فعال رکن حامد قدر مرضی ہوں یا جرگلان کے امام جمعہ اہلسنت آخوند صمدی، سبھی اس انقلاب کو اپنا قرار دیتے ہیں۔

ایران کے طول و عرض میں ایسی متعددشخصیات ہیں جو ایران کو ایک جدید معتدل، روادار اسلامی معاشرہ و سیاسی نظام اور اتحاد اسلامی کا علمبردار قرار دیتی ہیں۔ ایران کی پارلیمنٹ میں 20 تا 25 ارکان سنی ہوتے ہیں۔ خواتین اراکین اسمبلی بھی کوٹے کی خیرات کے بجائے براہ راست الیکشن میں منتخب ہوتی ہیں۔ تہران میں ایک کئی منزلہ عمارت پر ان شہدا کی تصاویر پینٹ کی گئیں ہیں جو غیر مسلم اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ حال ہی میں ایک ویب سائٹ پر ایرانی صدر حسن روحانی کی تصویر دیکھی جس میں وہ ایک سنی شہید کے گھر ان کے خانوادے کی دلجوئی کررہے تھے۔ امور اہلسنت پر رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے بھی کئی علاقوںمیں مشیر مقرر کر رکھے ہیں۔ میں نے زاہدان میں جس مسجد میں نماز ادا کی وہاں سنی نمازیوں کو دیکھا، حتیٰ کہ قم جیسے شیعہ اکثریتی علاقے میں بی بی فاطمہ معصومہ (س) کے حرم مطہر پر ایک افغانی سنی سے ملاقات ہوئی۔ الطاف شیخ نے ایرانی سفرنامے میں وسطی ایشیائی عالم کو تہران میںدیکھا جو زاہدان کے دورے پر جارہے تھے۔

ایک برطانوی اخبار کے لیے الطاف گوہر نے امام خمینی کے بارے میں لکھا جب شاہ ایران مطلق العنان حکمران تھا۔ مختار مسعود اس انقلاب کی کامیابی کے چشم دید گواہ تھے۔ جلاوطنی کے خاتمے پر امام خمینی کی ایران کی واپسی کے مناظر کے بارے میں انھوں نے لکھا کہ ’’مہر آباد کے ہوائی اڈے سے بہشت زہرا کے قبرستان تک سارا راستہ دیدار کے لیے آنے والوں سے پٹا پڑا ہے۔ یہ فاصلہ تینتیس کلومیٹر ہے۔ لوگ پروانہ وار کھنچے کھنچے آئے ہیں، دیوانہ وار منتظر کھڑے ہیں۔‘‘

’’لوح ایام‘‘ میں امام خمینی کی تقریر کے بارے میں لکھا کہ ’’جذبات، شعریت اور خیال بندی سے خالی تھی۔ جوش، ہیجان، آگ اور دھوئیں سے عاری تھی۔ نہ کوئی فخریہ بات جو ایسے موقع پر بے اختیار منہ سے نکل جاتی ہے، نہ فتح مندی کا نشہ جو کامیابی کے بعد بن بتائے چڑھ جاتا ہے۔ ساری تقریر استدلالی اور منطقی تھی۔ اس تقریر پر ایک جہاں دیدہ سفیر کا تبصرہ صرف اتنا تھا: ’’ڈرو اس شخص سے جو اپنے نفس پر اتنا اختیار رکھتا ہو‘‘۔ مختار مسعود کے الفاظ میں اتنے سارے لوگ خود بخود استقبال کے لیے جمع ہوگئے کہ تبصرہ نگار تاریخ کی کتابیں کھنگال رہے ہیں۔

1983 میں ارشاد احمد حقانی نے ایران کا دورہ کیا، کالم لکھے اور اگلے سال ’’انقلاب ایران، ایک مطالعہ‘‘ کتاب تحریر کی۔ ملاحظہ فرمائیے کہ آج سے تیس سال قبل لکھے ہوئے یہ الفاظ آج کے نوجوانوں کو ایران کے بارے میں کتنی اہم خبر سے آگاہ کررہے ہیں۔ لکھا کہ انقلاب ایران سے دونوں عالمی طاقتیں ناراض ہیں۔ (تب سوویت یونین کا سقوط نہیں ہوا تھا)۔ امریکا اور مغربی بلاک کی انقلاب دشمنی تو ظاہر و باہر اور دن کے سورج کی طرح عیاں ہے۔ اس میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں کہ مغربی اقوام امریکا کی قیادت میں انقلابی ایران کا چراغ بجھانے کی فکر میں ہیں اور اولیں موقع ملتے ہی وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوئی بڑے سے بڑا اقدام اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کریں گی۔ روس (یعنی سوویت یونین) بھی انقلابی حکومت سے ناخوش ہے۔ ایران کی افغان پالیسی پاکستان سے بھی زیادہ غیر مصالحانہ اور بے لچک ہے۔

افضل حیدر، ڈاکٹر مرزا عسکری حسین، ثاقب اکبر سمیت کئی دیگر افراد نے ایران کا سفر کیا اور اپنے تاثرات تحریر کیے ۔ ڈاکٹر مرزا عسکری سمیت کئی ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے انقلاب یا ولایت فقیہ پر پی ایچ ڈی کی۔ سبط حسن نے اسے کسی اور نظر سے دیکھا حالانکہ عالمی سامراج کی غیر مشروط، بے لاگ اور بے لچک مخالفت اس انقلاب کی ناقابل فراموش خصوصیت تھی۔ غالباً سوویت یونین کی سامراجیت کو جائز سمجھنا وہ واحد سبب تھا جس کی وجہ سے سبط حسن کا زاویہ نظر مختلف رہا، ورنہ حقانی صاحب نے اپنے سفرنامے کے بارے میں لکھا تھا کہ عام تاثر یہ ہے کہ ایرانی حکومت کا جھکائو کمزور طبقات کی امداد و اعانت کی طرف ہے۔ ایک پاکستانی نے جو گذشتہ دس سال سے ایران میں مقیم ہے، نے راقم کو بتایا کہ دنیاوی لحاظ سے بڑے آدمیوں کو اب موجودہ حکومت میں کوئی اثر و رسوخ حاصل نہیں اور آپ تعلقات کے حوالے سے کوئی کام نہیں کروا سکتے۔

پاکستان اور پاکستانیوں سے ایرانی کتنی محبت رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ تہران میں امام خمینی کا حرم مطہر ہو، قم ہو یا مشہد و زاہدان، جہاں بھی گئے ایرانیوں کو پاکستانیوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ دیکھا، ہر ایک نے ہماری احوال پرسی کی۔ دنیا بھر میں انقلاب کی پینتیسویں سالگرہ منائی جارہی تھی تو دنیا بھر میں یہ منظر بھی دیکھا جارہا تھا کہ تہران میں بانی پاکستان کے نام سے موسوم ایک طویل شاہراہ خیابان محمد علی جناح پر لاکھوں ایرانی برج آزادی کی جانب رواں دواں نظر آئے ۔ علامہ اقبال کی برسی و سالگرہ ایران میں اسی طرح منائی جاتی ہے جیسے پاکستان میں ۔ وہاں یوم کشمیر پر بھی تقریبات ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کشمیر کو جنت نظیر خطہ کہتے ہیں لیکن اہل نظر اسی کشمیر کو ایران صغیر قرار دیتے ہیں۔ خدا اس روئے زمین پر ہماری جنت کو سدا سلامت، شاد و آباد رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔