راج موہن گاندھی کا سیاستدانوں سے شکوہ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  ہفتہ 15 فروری 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کراچی شہر میں منعقدہ فیسٹیول میں مہاتما گاندھی کے پوتے اور مورخ ڈاکٹر راج موہن گاندھی نے ایک بڑی اہم بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ قائداعظم نے ساؤتھ ایشیا میں امن کا خواب دیکھا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے عوام امن چاہتے ہیں، پاکستان اور بھارت کے شہری ایک دوسرے کے ملکوں میں سفر کرنا چاہتے ہیں لیکن دونوں ممالک میں جاری کشیدگی کی وجہ سے شہری پریشان ہیں، دونوں ممالک کے سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے ملک میں سفر کرنے کے لیے سفری پالیسیاں آسان کرنی چاہئیں جب کہ سیاستدان دونوں ممالک میں فاصلے بڑھاتے ہیں۔

ہم ڈاکٹر راج موہن گاندھی کی دوسری بات سے اتفاق کریں یا نہ کریں مگر پہلی بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ دونوں ممالک کے درمیان سفری پالیسیاں آسان ہونی چاہئیں، کیونکہ دونوں ممالک میں تقسیم خاندانوں کا ایک اہم مسئلہ آپس میں ملاقات کرنا بھی ہے۔ تقسیم ہند سے بہت سے مسائل پیدا بھی ہوئے اور ختم بھی ہوئے، کچھ نئے مسائل بھی سامنے آگئے مگر ان تمام میں اہم ترین مسئلہ ان خاندانوں کا ہے جو تقسیم سے اس قدر بے بس ہوگئے کہ باوجود وسائل اور سفری قدرت رکھنے کے ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کو ترس رہے ہیں۔

کتنی عجیب بات ہے کہ ہم (خواہ پاکستانی ہوں یا بھارتی ہوں) ترقی یافتہ قوموں کی ترقی اور ان کی اچھائیوں کو بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں مگر اچھائی میں ان کی تقلید نہیں کرتے۔

شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان 1950 سے 1953 تک ہونے والی جنگ کے دوران بچھڑنے والے خاندانوں کو دوبارہ ملانے پہ اتفاق رائے پھر سے ہوگیا ہے۔ ان خاندانوں کو 20 سے 25 فروری 2014 کے درمیان شمالی کوریا کے سیاحتی مقام پر آپس میں ملایا جائے گا۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان کشیدگی کی شدت کا اندازہ کسے نہیں، مگر انسانیت کے ناتے وہ اپنے لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے بچھڑے خاندانوں کی ملاقاتوں کا اہتمام کر رہے ہیں لیکن یہاں بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کا وجود شاید دل سے تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ ہی اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا گیا ہے یا شاید سیاست کا دفتر چلانے کے لیے ایسا ہو رہا ہے، جیساکہ راج مون گاندھی نے کہا کہ سیاستدان ممالک کے درمیان فاصلے بڑھا رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کو بنے بھی ایک طویل عرصہ گزر چکا مگر دیکھیے کہ وہاں بھی انسانیت سوز مظالم ہو رہے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ قبل ٹی وی چینلز پہ بنگلہ دیش میں احتجاج کرنے والے لوگوں پر پولیس تشدد دیکھا تو آنکھوں کو یقین نہیں آیا کہ ریاستی پولیس احتجاج کرنے والوں کو مارپیٹ یا عام طریقے کے تحت تشدد نہیں کر رہی بلکہ نوجوان لڑکوں کو پکڑنے کے بعد عین موقع پر کمانڈو انداز میں اچھل کر گردن اور ٹانگوں پر کود کر ان کی ہڈیاں توڑنے کی پریکٹس کر رہی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں 1971 کے حوالے سے اب بھی پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو سخت سزائیں دی جا رہی ہیں، حالانکہ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد تو مل بیٹھنے کی بات ہونی چاہیے تھی اور آپس کی تجارت وغیرہ سے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کی ضرورت تھی اور تقسیم ہونے والے خاندانوں کو ہر قسم کی سفری سہولیات بھی فراہم کرنے کی کوششیں ہونی چاہیے تھیں مگر ایسا نہ ہوا، نہ ہی مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر آتا ہے۔ یہی حال ان خاندانوں کا ہے جو پاکستان آنے کے لیے آج بھی کیمپوں میں منتظر ہیں اور عرف عام میں انھیں بہاری کہا جاتا ہے۔ یہ وہ خاندان ہیں جو پہلے پاکستان بنتے وقت ہونے والی تقسیم سے تقسیم ہوئے پھر دوبارہ 1971 میں بنگلہ دیش بننے پر یہ خاندان تقسیم ہوگئے۔ یہ ایک بڑا انسانی المیہ ہے کہ انسان چاند اور مریخ پر پہنچ رہا ہے مگر ایک ہی خطے میں رہنے والوں کے خاندان تقسیم ہیں اور محض ملاقات کے لیے ترس رہے ہیں۔ فیض صاحب جیسے عہد ساز شاعر یہ کہہ کر چلے گئے کہ:

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

نہ جانے کتنی برساتیں آئیں اور چلی گئیں مگر یہ دھبے دھلنا تو دور کی بات اپنے انگ کی پختگی کو بھی نہ چھو سکے۔ برصغیر کے مسلمان نہ جانے کہاں کہاں اس برسات کے منتظر ہیں کہ جس کے بعد خون کے یہ دھبے دھل سکیں۔

لکھنے والے نہ جانے کب سے لکھتے چلے آرہے ہیں اور اپنی اپنی حکومتوں سے بار بار درخواستیں بھی کرتے چلے آرہے ہیں کہ عوام کو آپس میں ملنے کے لیے بے جا سفری پابندیوں سے آزاد کیا جائے۔ اس سلسلے میں یہ تجاویز بھی دی گئیں کہ بزرگوں کو ترجیحاً ویزے کی اور دیگر سہولیات دی جائیں تاکہ کم ازکم مرنے سے قبل وہ اپنے پیاروں کو ایک بار تو دیکھ لیں۔ ایک بڑی تعداد ایسے بزرگوں کی ہے کہ جو پاکستان بننے کے بعد سے آج تک ایک مرتبہ بھی اپنے خاندان کے ان لوگوں سے ملنے نہیں گئے جو سرحد کے اس پار ہیں۔

ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ بعض خاندان سرحد کے اس پار اپنے خاندانوں سے ملنے بھی گئے اور اپنی اولاد کے رشتے بھی کردیے یعنی بہو سرحد پار سے لے کر آگئے، لیکن المیہ یہ ہے کہ اب بیٹی اپنے ماں باپ سے ملنے نہیں جاسکتی کیونکہ اس کے والدین سرحد کے اس پار رہتے ہیں اور ویزا پالیسی اتنی سخت ہے کہ دوبارہ جانا ممکن نہیں۔

خاندانوں کی تقسیم تو دنیا کے دیگر خطوں میں بھی ہوئی، کہیں دیوار برلن بنی تو کہیں سرحدی حدود دیوار بن گئی مگر یہ سب ایک مخصوص وقت تک ہوا۔ ہمارے ہاں یہ دیوار بنی تو گرنے کا نام ہی نہیں لیتی ہاں البتہ تجارت کرنے، تجارتی راہداری کے حصول کی بات ہوتی ہے، حکمت عملی طے ہوتی ہے اور عملدرآمد بھی ہوتا ہے، یہاں تک کہ پسندیدہ ملک قرار دینے کی بھی بات ہوتی ہے مگر افسوس انسانوں کو پسندیدہ قرار دینے کی باتیں نہیں ہوتیں۔

فن کار اور ادب سے تعلق رکھنے والے دونوں جانب کے لوگ ضرور اس ضمن میں کوششیں کرتے رہتے ہیں اور ان پر تنقید بھی ہوتی ہے۔ یہ سب اپنی جگہ سہی لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ کوششیں کامیاب کیوں نہیں ہوتیں؟ راج موہن گاندھی کچھ غلط نہیں کہہ رہے ہیں کہ سیاستدان فاصلے بڑھانے کا باعث ہیں۔ صرف پاک بھارت کا نہیں بنگلہ دیش کا منظر نامہ بھی یہی بتا رہا ہے کہ سیاستدان عوام اور ملک کو مضبوط کرنے کے بجائے خود کو مضبوط کرنے کے لیے عوام کے لیے بھی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ اگر سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر یہ الزام غلط ہے تو پھر انھیں اس کا عملی ثبوت پیش کرتے ہوئے ان ملکوں کے مابین ویزے اور سفری پالیسیوں کو آسان سے آسان بنانا ہوگا اور عوام کی بھلائی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر پالیسی بھی بنانا ہوگی۔ پڑوسی ملکوں کو پسندیدہ قرار دینے والے ان ممالک کے باسیوں کو بھی پسندیدہ قرار دینے کی بات کرنا پسند کریں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔