ٹرانس جینڈر ڈاکٹر: صلاحیتیں جنس سے مخصوص نہیں

شایان تمثیل  جمعرات 20 جنوری 2022
سارہ گِل نے پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر کا اعزاز حاصل کرلیا۔ (فوٹو: فائل)

سارہ گِل نے پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر کا اعزاز حاصل کرلیا۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ روز ایک خبر نظر سے گزری کہ ’’سارہ گِل نے پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر کا اعزاز حاصل کرلیا‘‘۔ اس خبر کو جب سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو کچھ تعریفی کلمات کے ساتھ اکثریت ایسے کمنٹس کی تھی جس میں خواجہ سراؤں کےلیے روایتی تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا گیا تھا۔

پوسٹ کا مرکزی خیال خواجہ سراؤں کو درپیش مشکلات اور معاشرتی عدم مساوات کے باوجود اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر معاشرے میں اپنا منفرد مقام بنانے سے متعلق تھا۔ ساتھ ہی ڈاکٹر سارہ گل کی وہ ویڈیو بھی پوسٹ کی تھی جس میں وہ ڈاکٹر بننے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت ناقدین کا بھی شکریہ ادا کررہی ہیں۔

لیکن اس پوسٹ پر بھی کچھ صاحبان نے اپنی دانشوری کے ڈونگرے برساتے ہوئے صرف اور صرف خواجہ سراؤں کو ہی مطعون اور معاشرے کا ناسور قرار دے دیا۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ معترضین میں زیادہ تر صاحبان وہ تھے جن کی پروفائل تصویر باریش اور جن کی وال پر زیادہ تر پوسٹیں اخلاقیات اور اسلامی تعلیمات کا درس دیتی نظر آرہی تھیں۔ آخر اتنی اچھی پوسٹیں کرنے والا شخص خود اس قدر ’’شدت پسند‘‘ اور ’’بند ذہن‘‘ کس طرح ہوسکتا ہے؟

یہ بلاگ بھی پڑھیے: کیا پاکستان میں خواجہ سرا ہونا جرم ہے؟

یہ ہمارے معاشرے کا ایک اور تاریک پہلو ہے، جہاں سب لوگ گفتار کے غازی تو خوب بنتے ہیں لیکن کردار کے غازی نہیں بن پاتے۔ اپنے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر لمبی چوڑی پوسٹوں میں اخلاقیات کا درس دینا تو آسان ہے لیکن ان ہی اخلاقیات کا عملی مظاہرہ انھیں مشکل لگتا ہے۔ کسی خواجہ سرا کو تنقید کا نشانہ بنانا، ملے اور جانے بغیر اس کے کردار پر انگلیاں اٹھانا ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ہے۔

معاشرے کی اکثریت نے ایک جیسی سوچ اپنا لی ہے کہ ہر خواجہ سرا اخلاقی گراوٹ کا شکار اور معاشرے میں کج رو جنسی افعال کا ذمے دار ہے، جن کی وجہ سے آج کے نوجوان اخلاقی طور پر بگڑ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کوئی بھی شخص خود کو ان خواجہ سراؤں کی جگہ پر رکھ کر نہیں سوچ رہا۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ وہ تخلیق جس میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں، اور اسی بنا پر نہ صرف یہ معاشرہ بلکہ خود آپ کے اپنے بھی آپ کو دھتکار دیں، کیا ایسے رویے کے بعد آپ معاشرے میں سروائیو کر پائیں گے؟

خواجہ سراؤں کی مخالفت میں بولنے والے زیادہ تر افراد کا موقف ہوتا ہے کہ اگر تخلیق کرنے والے نے ان خواجہ سراؤں میں کوئی کمی رکھی ہے تو اس پر صبر کریں اور گھر کی چار دیواری میں بند ہوکر عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آخری وقت آپہنچے۔ اور اللہ ان کے اس صبر اور شکر کا اجر انھیں آخرت میں دے گا۔ لیکن ان کے مطابق ان خواجہ سراؤں کو معاشرے میں ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کرنے کا حق نہیں ہے۔ معاشرے میں گھر سے باہر آنے اور عام انسانوں کی طرح تعلیم حاصل کرنے اور اپنا نام بنانے کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے یہ خواجہ سرا معاشرے میں بے حیائی پھیلانے کے قصوروار ہوں گے۔ لیکن جب ان دانشوروں سے پوچھا جائے کہ جس ’’بے حیائی‘‘ کا یہ تذکرہ کررہے ہیں اس میں قصوروار صرف خواجہ سرا ہی کیوں؟ تالی تو دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے تو یہ صاحبان بے تکی دلیلیں اٹھا لاتے ہیں یا پھر سگنلز پر کھڑے یا رات کی تاریکی میں دعوت گناہ دیتے ان لوگوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں جن میں سے اکثریت حقیقی خواجہ سراؤں سے تعلق ہی نہیں رکھتی۔

ہاں ایسے خواجہ سراؤں کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا جو اسی معاشرے اور اپنوں کے دھتکار دیئے جانے کے باعث جگہ جگہ جا کر بھیک مانگنے یا پھر رقص کرکے لوگوں کا دل لبھا کر اپنا پیٹ بھرنے کا سامان کرتے ہیں۔ اور ایسے خواجہ سرا بھی موجود ہیں جو جنس کا کاروبار کرکے بقول ان لوگوں کے معاشرے کی اخلاقی اقدار خراب کررہے ہیں۔ لیکن ہر خواجہ سرا ایسا نہیں ہے اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ جسم کا سودا کرنے کےلیے خواجہ سرا ہونا لازم نہیں۔ ہر صنف سے وابستہ شخص اگر خود کو ’’بیچنا‘‘ چاہے تو ہمارے ہی معاشرے میں اس کےلیے کئی آسان راہیں ہیں۔ ایسے میں صرف خواجہ سراؤں کو جسم فروشی یا جنسی افعال میں ملوث ہونے کا طعنہ دینا اس کمیونٹی کے ہر فرد کے ساتھ زیادتی ہے۔

جو اصل خواجہ سرا ہیں وہ آج بھی اپنی پہچان کی تلاش میں سرگرداں ہیں، معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کی سعی میں مصروف ہیں۔ اپنی کمیونٹی پر لگے بدنامی کے دھبے کو دھونے کےلیے باعزت روزگار کمانے کی فکر میں ہیں۔ کوئی بیوٹیشن، کوئی ڈانسر، کوئی ایکٹر، کوئی وکیل اور کوئی ڈاکٹر بننے کےلیے تعلیم حاصل کررہا ہے۔ لیکن اس قابل عزت مقام تک پہنچنے میں بھی یہی معاشرہ اور اس معاشرے کے پروردہ وہی ’’بند ذہن‘‘ حائل ہیں جو ایک خواجہ سرا کو اپنے ساتھ کھڑا ہونے کے لائق نہیں سمجھتے۔ جو نہیں سمجھتے کہ ایک خواجہ سرا بھی ان ہی کی طرح ایک انسان ہے۔

ڈاکٹر سارہ گل کو بھی اپنے تعلیمی سفر میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آج سارہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر طبقے کی فلاح و بہبود کےلیے ’’جینڈر انٹریکٹیو الائنس‘‘ کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم چلا رہی ہیں۔ اپنی کمیونٹی میں ایک الگ پہچان رکھتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان کی کمیونٹی میں سب خواجہ سرا تعلیم حاصل کریں۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ خواجہ سرا خود پر لگی بدنامی کی چھاپ کو تعلیم کی روشنی سے ہی دور کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر سارہ گل نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے بے انتہا جدوجہد اور معاشرتی مخالفت کا سامنا کیا ہے۔ خواجہ سراؤں پر تنقید کرنے والے کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک خواجہ سرا کو معاشرے میں گھر سے باہر نکلنے، تعلیم سے لے کر باعزت روزگار حاصل کرنے تک کن کن مراحل اور تضحیک آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس معاشرے کے ’’نام نہاد باعزت‘‘ افراد بار بار کس طرح ان خواجہ سراؤں کو جنسی استحصال کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے افراد کا تعلق یا سامنا کبھی حقیقی خواجہ سراؤں سے ہوا ہی نہیں ہے۔ وہ صرف سنی سنائی باتوں یا خود اپنے شوق کے ہاتھوں غلط جگہ پہنچ کر اس کمیونٹی کے غلط نمائندوں سے ملاقات کے بعد یہ فتویٰ صادر کردیتے ہیں۔ ایسے افراد کو بند کنویں سے باہر نکلنا ہوگا۔

میں اس سے پہلے بھی خواجہ سراؤں پر کچھ تحاریر لکھ چکا ہوں۔ جاننے والوں نے اعتراض بھی کیا کہ آخر یہی موضوعات کیوں؟ مذاق بھی بنایا گیا کہ اس طبقے سے میرا کیا خاص تعلق ہے جو میں ان کی حمایت میں لکھ رہا ہوں۔ میرا موضوع معاشرت اور نفسیات رہا ہے، اور نفسیات کا موضوع جنسیات کے بغیر نامکمل ہے۔ اپنے کام اور این جی او کے ساتھ تعلق کی وجہ سے میرا ٹرانس جینڈرز کمیونٹی سے بھی رابطہ رہا۔ ڈاکٹر سارہ گل کے علاوہ دیگر ٹرانس ایکٹیوسٹ شخصیات سے بھی گفتگو ہوئی۔ اور میں نے ان لوگوں کو اس سوچ سے قدرے مختلف پایا جو ہمارے معاشرے میں بطور خاص ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے متعلق بنا لی گئی ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: ایمان علی صاحبہ! آپ نے ٹرانس جینڈرز کی خوبصورتی دیکھی ہے؟

ہمارے معاشرے کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ خواجہ سرا بھی انسان ہیں، اسی معاشرے کا فرد ہیں۔ انھیں اخلاقی طور پر بگاڑنا یا سنوارنا بھی اسی معاشرے کے رویوں میں پوشیدہ ہے۔ خواجہ سرا بھی صلاحیتوں میں کسی مرد یا عورت سے کم نہیں۔ بات صرف مواقعوں کی ہے۔ اگر ہم لوگ خواجہ سراؤں کو بھی معاشرے میں اسی طرح قبول کریں، ان کی تعلیم اور دیگر راہوں میں حائل نہ ہوں تو یہ بھی معاشرے کا کارآمد فرد ثابت ہوسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Shayan Tamseel

شایان تمثیل

بلاگر کوچہ صحافت کے پرانے مکین ہیں اور اپنے قلمی نام سے نفسیات وما بعد النفسیات کے موضوعات پر ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ معاشرت، انسانی رویوں اور نفسانی الجھنوں جیسے پیچیدہ موضوعات پر زیادہ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ صحافت اور ٹیچنگ کے علاوہ سوشل ورک میں بھی مصروف رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔