کیا یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا؟

محمد اقبال  جمعـء 21 جنوری 2022
پاکستان 1947 سے اب تک مسلسل مختلف بحرانوں سے گزر رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان 1947 سے اب تک مسلسل مختلف بحرانوں سے گزر رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

نیا سال بھی آگیا لیکن انجانے خوف اور وسوسوں کے ساتھ ہم 2022 میں داخل ہوئے جہاں بحثیت قوم آج بھی ہم میں سے بیشتر لوگ اپنے ملک کے حوالے سے فکرمند اور غم زدہ ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ آخر کب ہمارے حالات بدلیں گے؟ سچی اور تلخ بات یہ ہے کہ آج ہم جن حالات کا سامنا کررہے ہیں وہ ہماری بھرپور محنت کا ثمر ہیں۔

1947 سے لے کر آج تک ہم یہ ہی طے نہیں کرسکے کہ حکومت کس نے کرنی ہے اور حکومت کو چلانے کے خدوخال کیسے ہونے چاہئیں۔ آپ ذرا غور کیجئے کہ ہم نے 1972 میں ایک متفقہ آئین تشکیل دیا لیکن اُس آئین کو جس طرح بے توقیر ہمارے آمروں اور سیاستدانوں نے کیا ہے اس کی مثال آپ کو دنیا میں کہیں نہیں ملے گی اور جس کے نتائج دیکھ کر آج ہر شخص یہ کہہ رہا ہے کہ یہ ملک اب ایسے نہیں چلے گا۔

اس حوالے سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا جس میں تین افراد ملکی حالات پر اپنا تجزیہ پیش کررہے تھے۔ ایک نے کہا کہ مجھے آنے والے وقت سے خوف آرہا ہے جس میں مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان آنے والا ہے۔ دوسرا شخص بولا کہ مجھے تو بھائی خون ریزی نظر آرہی ہے۔ جبکہ تیسرا شخص نہایت اطمینان سے بولا کہ بھائی مجھے ان سب باتوں سے بھی زیادہ خطرناک صورت حال نظر آرہی ہے اور وہ یہ کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔

کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جو ملک اور معاشرہ ترقی نہیں کرتے اس کی وجوہات کیا ہیں؟ یا جن ممالک نے اپنے حالات بہتر کیے ہیں، اُن کے کیا عوامل ہیں؟

میری ناقص رائے میں اُن تمام ممالک میں جہاں تیز رفتار ترقی ہوئی، وہاں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ اِن تمام ممالک نے پہلے یہ طے کیا کہ ملک کس نے اور کیسے چلانا ہے۔ ملک کس نے چلانا ہے کہ جو اب طرزِ حکومت میں موجود ہے جو کہ صدارتی، جمہوریہ یا بادشاہت وغیرہ میں کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ اور کیسے چلانا کا جواب ہمیں صرف آئین کی کتاب ہی بتا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم آج بھی اسی بحث میں الجھے رہتے ہیں کہ ہمارا نظامِ حکومت کیا ہونا چاہیے۔

دوسری اہم بات ہم نے آئین کی تشکیل تو کردی لیکن اُس کی عملداری کا فقدان آپ کو ہر جگہ نظر آئے گا۔ پی ٹی آئی کا نعرہ ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ تمام پاکستانیوں کےلیے ایک ایسا دلفریب پیغام تھا جس کے سحر میں جوان، اُمرا اور متوسط طبقہ فوراً آگیا اور عمران خان کو فوراً اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگا۔ لیکن بدقسمتی سے صرف 4 سال میں عوام کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔

ہمارے وطنِ عزیز کے حالات سمجھنے کےلیے ایک امریکن محقق اور استاد ڈاکٹر ولیم ایڈورڈ ڈیمنگ کا یہ قول کافی ہے “A bad system will beat, good person every time ” (ایک برا نظام ایک اچھے انسان کو ہمیشہ ہرا دے گا)۔ اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ پڑھیں جو کہ بدقسمتی سے کافی تاریک ہے، جہاں ابتدا سے اب تک آنے والے تمام حکمران اسی کرپٹ سسٹم کے ہاتھوں یرغمال اور بے بس نظر آتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ماضی کی سنگین غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بعد اس ملک کو عظیم الشان بنانے کےلیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟

اب ہمیں طے کرنا ہوگا کہ ملک کس نے اور کیسے چلانا ہے اور دوم اگر ہم یہ طے کرلیتے ہیں کہ پاکستان کو ایک جمہوری ملک بنانا ہے تو پھر ملک کے سیاستدانوں کو یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ وطنِ عزیز میں ایک ایسا جمہوری نظام وفاق سے تحصیل تک لے کر آنا ہوگا جس میں ایک عام شہری کو کسی ایم این اے، ایم پی اے، وزیر یا مشیر کی طرف نہ دیکھنا پڑے بلکہ اپنے گلی محلے کی سطح کے تمام مسائل اپنے منتخب شدہ کونسلر سے حل کروا سکے۔

اکیسویں صدی کی تقریباً ایک چوتھائی گزرنے کے بعد بھی اگر آج ہم طے کرلیں کہ وطنِ عزیز کو ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو ہمیں سنجیددگی سے آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہوگا۔ جس میں غریب اور امیر کے لیے قانون میں کوئی تفریق نہ ہو۔ ورنہ یہ قوم دلفریب نعرے ’’پاکستان کا مطلب کیا لَا اِلٰہَ اِلَّا الَّلہ، ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘، ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ اور ‘‘دو نہیں ایک پاکستان‘‘ تو 1947 سے مسلسل لگا رہی ہے اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ قانون کی عملداری کے حوالے سے رول آف لا انڈیکس 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق 139 ممالک کی فہرست میں پاکستان 130 ویں نمبر پر موجود ہے۔ ہمارے لاغر قانون کی کمزور عملداری کے اثرات آپ کو معاشرے میں تقریباً ہر جگہ نظر آئیں گے جس کی تازہ مثال پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی پر نظر رکھنے والے ادارے ہینلے کی 2022 کی رپورٹ ہے، جس میں 111 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 108 واں ہے۔

پاکستان 1947 سے اب تک مسلسل مختلف بحرانوں سے گزر رہا ہے لیکن مجال ہے کہ ہمارے حکمراں اور عوام اس صورتحال کی نزاکت کو سمجھیں اور اس سے نکلنے کےلیے اپنی سوچ کو تھوڑی زحمت دیں اور اپنے گزرے ہوئے 74 سال پر نظر ڈالیں۔

جن حالات کا سامنا آج ہماری قوم کررہی ہے اس میں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہماری کاوشیں بھی بھرپور رہی ہیں، جس کا مشاہدہ ہم ہر روز کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس کے خلاف بحثیت قوم ہم آواز اس لیے نہیں اٹھاتے کیونکہ اسی فرسودہ سسٹم سے ہم خود مستفید ہورہے ہیں۔ اگر میری اس بات کو آپ بھی مشاہدہ کرنا چاہیں تو آپ اپنے گھر سے لے کر ملکی سطح پر کسی بھی جگہ یا ادارے کو دیکھیے، لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسی فرسودہ سسٹم کو سپورٹ کرتی نظر آئے گی۔ میری نظر میں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگر قانون کو اس کی صحیح روح کے مطابق نافذ کردیا گیا تو پھر ہمیں اپنا کام وقت پر کرنا پڑے گا، گھروں اور دکانوں سے انکروچمنٹ ختم کرنا پڑے گی، حق دار کو حق دینا پڑے گا، غریب اور امیر کےلیے قانون کو یکساں کرنا پڑے گا۔ اور یہ سب بہت سے لوگوں کےلیے مشکل ہوگا۔ لیکن اگر ہم ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے جہاں صرف قانون ہی سپریم ہو تو پھر آنے والا وقت ایک عظیم الشان اور خوشحال پاکستان کا ہوگا۔ مگر اس کےلیے ہمیں پورا سچ بولنا ہوگا اور جدوجہد کو اپنا مقصد بنانا ہوگا۔ لیکن اگر عوام اور حکمران طبقے نے اپنی روش نہ بدلی اور آئین و قانون کو وہ اہمیت نہ دی جس کا کوئی بھی ملک متقاضی ہوتا ہے تو پھر یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد اقبال

محمد اقبال

بلاگر بحریہ یونیورسٹی کراچی کیمپس کے کمپیوٹر سائنس ڈپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ بلاگر سے بذریعہ ای میل [email protected] یا ٹویٹر ہینڈل @miqbal7275 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔