سانحہ مری کی انکوائری رپورٹ

ایڈیٹوریل  جمعـء 21 جنوری 2022
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارکو سانحہ مری کی انکوائری رپورٹ پیش کردی گئی ہے  فوٹوفائل

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارکو سانحہ مری کی انکوائری رپورٹ پیش کردی گئی ہے فوٹوفائل

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارکو سانحہ مری کی انکوائری رپورٹ پیش کردی گئی ہے اور15افسروں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ان میں کمشنر راولپنڈی ڈویژن، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی، سی پی او، اے سی مری اور دیگر افسر شامل ہیں۔ عثمان بزدار نے وزیر اعلیٰ آفس میں پریس کانفرنس میں بتایا کہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں میں پندرہ افسروں کو عہدوں سے ہٹا کر کارروائی کی جارہی ہے۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مری میں ہونے والا سانحہ ہر لحاظ سے افسوس ناک اور انتہائی تکلیف دہ ہے۔ کوئی ذی روح ایسا نہیں جس نے اس حادثے کی شدت کو محسوس نہ کیا ہو۔ ہم پوری قوم کے ساتھ سانحہ مری کے متاثرین کے دکھ میں شریک ہیں۔

انصاف کی بات یہ ہے کہ ایک طرف وزیر اعلیٰ پنجاب سانحہ مری کے بارے میں شدید رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑا سانحہ ہے جس کی وجوہات اور ذمے داروں کا تعین کرنے کے لیے ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم کی سربراہی میں ہائی لیول انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، اس کمیٹی نے بڑی عرق ریزی سے پس پردہ حقائق کا جائزہ لیا اور سانحہ کی رپورٹ مرتب کی۔

تاہم عرق ریزی اور پس پردہ حقائق کا جائزہ لینے کے بعد ذمے داروں کے خلاف کوئی قابل غور تادیبی کارروائی صرف اتنی ہوئی کہ انھیں معطل کیا گیا اور ان کے خلاف انضباطی کارروائی کی جارہی ہے، جب کہ بیورو کریسی سمیت پولیس کیریئر میں معطلی کوئی بڑی سزا نہیں ہوتی، اسے ’’سستے میں چھوٹنے والی سزا شمار کیا جاتا ہے‘‘ سزا یافتہ ذمے دارکسی بڑی تادیبی کارروائی کے خوف میں مبتلا نہیں ہوتا، اسے تنخواہ و مراعات ملتی ہیں، اور بڑے عیش میں رہتا ہے۔

کچھ عرصے کے بعد انھیں کسی اور بڑے عہدے پر تعینات کردیا جاتا ہے ، یوں جو کل زیرو تھے وہ آج ہیرو بن جاتے رہے ہیں، بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے، اس لیے بیورو کریسی، پولیس اور دیگر محکمہ جاتی سرزنش میں سستے میں چھوٹنے والی سزا معطلی ہی ہوتی بلکہ یہ سزا ہوتی ہی نہیں ہے۔

یوں سمجھ لیں کہ وہ او ایس ڈی بن جاتے ہیں، لہٰذا ناحق وزیر اعلیٰ کے نامزد کردہ انکوائری کمیٹی کو سانحہ مری کے حوالے سے عرق ریزی اور پس پردہ حقائق کی تلاش میں تحقیق و تفتیش کے ہفت خواں کھنگالنے پڑے، اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے ماورا ڈیوٹی سرانجام دینا پڑی، مثلا ارباب اختیار سے پوچھا جاسکتا تھا کہ ان افسران نے کیا عرق ریزی کی اور کون سے حقائق اور برف باری یا برفانی طوفان کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھایا۔

ہلاک شدگان کے سانحے کے پیچھے جو چھپے اسباب تھے انھیں ڈھونڈ نکالا، ذمے داروں نے ٹریفک جام ہونے، برف باری کے طوفانی اثرات کی روک تھام کے لیے اپنی نیند برباد کی، کہاں کہاں انھوں نے بنیادی معاملات کا کھوج لگایا، کیا ٹول پلازا حکام سے باز پرس کی جو اس روز ہزاروں گاڑیوں کے آمد کی پرچیاں کاٹنے اور وصول کرنے میں مصروف تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ سانحہ کے درد انگیز لمحوں میں کہیں بھی وہ مینجمنٹ نظر نہیں آئی جسے ڈزاسٹر مینجمنٹ کا نام دیا جاتا تھا، جن افسران نے عرق ریزی سے جو رپورٹ تیار کیا ہے انھیں فرض شناسی کے ان لمحات میں مرنے والے بچوں کو تلاش کرنا چاہیے تھا ، ان گاڑیوں کے پھنس جانے کے ذمے داروں کو تلاش کرنا چاہیے تھا، یہ ستم ظریفی ہے کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد بھی وزیر سیاحت کا کہیں ذکر نہیں آیا ، کیا وہ خیریت سے ہیں جب کہ لوگ کہتے ہیں کہ مری میں دیوانہ وار جانے والے افراد کو سیاحت کے شوق نے موت کے سفر پر روانہ ہونے کی شہ دی تھی، حکمرانوں نے سیاحت اور ملک کے حسین مناظر اور خوبصورت مقامات، دیکھنے کا جنون پیدا کیا، وہ ان خطرات اور مہم جوئی کے مہلک امکانات اور اندیشوں کو فراموش کرچکے تھے۔

ارباب اختیار بھی تو اس سانحہ کے اہم کردار ہیں، ان سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ ایک دال پانچ سو روپے میں کیسے فروخت کی گئی، مہنگائی کے ذمے دار ہوٹل مالکان کو کس نے اس لاقانونیت کی اجازت دی، کس طرح چار ہزار کی گنجائش والی پارکنگ لاٹ میں ایک لاکھ گاڑیاں ٹھونس دی گئیں، مسئلہ محض معطلی کی سزا کا نہیں بلکہ اس سے زیادہ گمبھیر تھا، کرمنل لاجک اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ذمے داروں کو معطلی کی سزا دے کر در اصل چیپٹر کو جلدی سے کلوز کرنا ہے۔

اگر یہ بہت بڑا اور نہایت دردناک واقعہ تھا تو اس میں نااہلیت، فرائض سے مجرمانہ غفلت پر ذمے داروں کے خلاف مقدمات درج ہونے چاہیے تھے ، خصوصی عدالت میںکیس چلنا چاہیے تھا، ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہیے تھی، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے کہا ہے کہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے میں خود بھی وہاں گیا تھا، قوم سے سانحہ کی شفاف انکوائری اور ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا تھا جو پورا کیا، مگر ان کا یہ وعدہ ادھورا ہوگا جب تک کہ ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا، جتنا بڑا سانحہ تھا اتنا بڑا ایکشن نہیں ہوا، ایک اعلیٰ سطح کمیشن کے قیام کے بجائے چند افسران کو معطلی اور ٹرانسفر لیٹر تھمانے سے مری سانحہ کا دکھ بھلایا نہیں جاسکے گا۔

ایک آدھ روز پہلے منشیات اسمگلنگ کے کیس میں ایک ملزم کی ضمانت منظور کرتے ہوئے محترم جج صاحب کیس میں موجود اسقام پر برہمی کا اظہارکیا اور ریمارکس دیے کہ پراسیکیوشن کی خامیوں کی وجہ سے بے گناہوں کو سزا اور اصل ملزمان بری ہوتے ہیں، پراسیکیوشن کی خامیاں کوئی نہیں دیکھتا، سب کو شکایت عدالت سے ہوتی ہے، ایف آئی آر میں عمومی ناکہ بندی کے دوران ملزم سے چرس برآمدگی کا دعویٰ کیا گیا، پولیس ایسی ناکہ بندی کے دوران ملزمان کی وڈیو کیوں نہیں بناتی؟ کل کوئی ملزم انکار کردے کہ میں جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھا تو کیا ہوگا؟ ہر پولیس والے کے پاس موبائل فون موجود ہوتا ہے۔

کیا وزارت داخلہ کو یہ اطلاع نہیں ملی کہ ہر بندے کے پاس موبائل ہے؟ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی ایسی ناکہ بندی کے دوران ملزمان کی تصاویر کیوں نہیں لی جاتیں، کیا پراسیکیوشن ملزمان سے ملکر مقدمات میں خامیاں چھوڑتا ہے؟ کیا پراسیکیوشن کا کام عدالتوں کو چکمہ دینا ہے؟ آج کل دو سال کے بچے نے بھی موبائل فون استعمال کرنا شروع کردیا ہے، پولیس والے نے بغیر مخبری کے ناکہ بندی کے دوران چرس پکڑی، پولیس والا اتنا تجربہ کار تھا تو موبائل فون استعمال کرنا نہیں آتا تھا، ملزم کے خلاف چالان پیش کردیا لیکن گاڑی کے مالک کی تفصیلات نہیں دیں۔

اس عدالتی برہمی میں مری واقعے کی بساط لپیٹنے کے معاملے کی حساسیت ارباب اختیار کے لیے ایک سوال ہے۔ ایک تکلیف دہ سانحہ کا معاملہ اتنی جلدی لپیٹ دیا گیا، صرف لفظ معطلی میں۔ اسے عقل ماننے کو تیار نہیں۔ مری واقعہ کی اہمیت یا دکھ کا تناظر اتنا شدید ہے کہ اس روز جب یہ سانحہ ٹی وی پر قوم نے دیکھا تو ماہرین نے اس کی ہولناکی پر فوری کارروائی میں کوتاہی کی طرف مبذول کرائی ، لیکن اس بات کی طرف کسی نے توجہ نہ کی کہ اس پورے واقعے کی منظرکشی ایک فلمی تسلسل کے ساتھ جاری رہی، لوگ برف باری یا طوفان کو کسی ڈرامائی سین سمجھتے رہے، وہ اس دکھ اور اذیت سے بے خبر رہے جو واقعہ میں مضمر تھی، یہی بات مارشل میکلوہن نے اپنی کتاب میں کہی کہ میڈیا ناظرین کو اندوہ ناک واقعہ سے بے خبری کی انتہا تک پہنچاتا ہے۔

لوگ اپنا غم بھولنے کے ردھم میں دوسروں کے غم بھول جاتے ہیں، ان کے لیے کوئی سانحہ، سانحہ نہیں رہتا، وہ قتل وغارت اور انسانی خون کو بھی ایک کھیل یا گیم کی طرح لیتے ہیں، انسانی واقعات پر کوئی دل تکلیف سے نہیں تڑپتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے جن شہروں میں دہشتگردی اور بربریت کے واقعات کبھی نہیں ہوئے وہاں بھی ظلم و بربریت عروج پر ہے، وقت کی قدریں بندوق کی نوک پر بدلتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہمارے سماج میں ہو رہا ہے، انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تفریح گاہوں میں سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ انسانی جان کے تحفظ پر بھی توجہ دینی چاہیے، ایسے مقامات جو دشوارگزار ہیں، ان میں سفری سہولیات کا خاص خیال رکھنا بے حد ضروری ہے، مری کے بارے میں بنیادی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے جو رپورٹس شایع ہوئی وہ یقینا ہولناک تھیں، ارباب اختیار کو تفریحی مقامات پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے، جہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک ماہر نفسیات نے اپنی گفتگو میں ایک عجیب بات کہی، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگ انسانی صدمات، حادثات اور المیوں میں بھی خوشی کے لمحات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں کسی انسان کی ذات سے پہنچنے والی اذیت بھی متاثر نہیں کرتی، وہ المیوں سے غافل ہوگئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔