ڈیورنڈ لائن اور قوم پرست سیاست

جمیل مرغز  جمعـء 21 جنوری 2022
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

ڈیورنڈ لائن کے سلسلے کا یہ دوسرا کالم ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ افغان حکمر ان امیر عبدالرحمان اور ہندوستان کی انگریز حکومت نے باقاعدہ معاہدے کے تحت ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم کیا تھا‘ انگریز حکومت نے افغانستان کے حکمرانوں کو بطور وظیفہ دی جانے والی رقم 12لاکھ سالانہ سے بڑھاکر 18لاکھ سالانہ کردی تھی جو آج کے حساب سے کئی ارب روپے بن جائے گی۔

یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ افغانستان کے حکمرانوں نے جنگ میں شکست کھانے کے باوجود اپنے وظیفہ کی رقم میں چھ لاکھ روپے سالانہ کا اضافہ کرایا اور ڈیورنڈ لائن کی منظوری دے دی تھی ‘ اگر افغان حکمران شکست کھانے کے بعد ہندوستان کی انگریز حکومت کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات ختم کردیتے اور اعلان کرتے کہ وہ افغانستان کے علاقے پر انگریزی سرکار کا زبردستی قبضہ تسلیم نہیں کرتے تو آج افغانستان اور اس کے حامی پاکستانی پختونوں کا کیس مضبوط ہوسکتا تھا لیکن یہاں تو امیر صاحب نے باقاعدہ معاہدے پر دستخط کیے اور اس معاہدے کو افغان لویاجرگہ سے منظور کراکے اسے قانونی شکل بھی دے دی۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 1893سے لے کر 1947تک کسی بھی افغان حکمران نے ڈیورنڈ لائن کی مخالفت نہیں کی اور اسے سرحد تسلیم کرتے رہے‘ قیام پاکستان کے فوراً بعد افغانستان کے حکمرانوں اور اشرافیہ کو اچانک اس طرف کے پختونوں سے ہمدردی پیدا ہوئی اور انھوں نے ڈیورنڈ لائن نہ ماننے کا راگ الاپنا شروع کردیا ۔

2007میں جنرل مشرف نے امریکا اور افغان حکمرانوں کے ڈو مور کے مطالبوں سے تنگ آکر اعلان کیا تھا کہ پاکستان دراندازی روکنے کے لیے افغان بارڈر پر باڑ لگائے گا‘ اس پر افغان حکومت نے احتجاج کیا تھاکیونکہ افغان باشندوں کے کاروبار اور کمائی کا زیادہ انحصار پاکستان پر ہے۔

پھر پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین افغان حکومت کے لیے مددگار بھی ثابت ہورہے تھے۔ 2012میںپاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی خصوصی نمایندے مارک گراسمین نے بیان دیا کہ ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد ہے‘ ان کے اس بیان کی تائید امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نو لینڈ اور اسلا م آباد میں امریکی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف رچرڈ ہوگ لینڈ نے بھی کی۔

اس بیان کے بعد افغان وزارت خارجہ نے اس بیان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا اور ایک انوکھی اور نرالی منطق گھڑی کہ 1947کے بعد یہ لائن دو ہمسایوں کے درمیان سرحد تو ہے لیکن افغانستان کی حکومت اس سرحد کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی۔اس وقت کی افغان وحدت کمیشن کے چیئر مین عتیق اللہ امر خیل نے فرمایا کہ اگر افغان حکومت نے امریکی حکومت کے ساتھ خفیہ سودا بازی بھی کرلی ہے تب بھی افغان عوام اس مسئلے پر اپنے تاریخی موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

یہ مسئلہ حکومت پاکستان اور افغانستان دونوں حل کرنے کے مجاز نہیں ہیں،صرف ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف رہنے والے پختون ہی یہ مسئلہ حل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ افغان وزارت خارجہ اور موصوف عتیق امرخیل پتہ نہیں کس تاریخی موقف کی بات کررہے ہیں کیونکہ ماضی کے افغان حکمرانوں نے تو کبھی اختلافی بات نہیں کی ، یہ تو پاکستان کے بعد شوشا چھوڑا گیا۔

اس مسئلے پر سب سے زیادہ منافقت کا رویہ پاکستان میں روایتی پختون قوم پرست پارٹیوںکا ہے ‘ اے این پی کے رہنما افغانستان جاکر ڈیورنڈ لائن نہ ماننے کا اعلان کرتے ‘ سردار داؤد کے دور میں پختون علاقوں کو افغانستان میں شامل کرنے کے لیے ایک منظم مہم بھی شروع کی گئی ‘قائدین ہمیشہ بند کمروں میں فخریہ انداز سے ڈیورنڈ لائن نہ ماننے اور ’’لر او بر یو افغان ‘‘(اوپر اور نیچے ایک افغان) کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن پاکستان کے اندر کبھی کھلے عام یہ بات نہیں کہتے‘ بلکہ پاکستان میں اعلیٰ سرکاری عہدوں اور وزارتوں پر براجمان ہیں۔ جناح پارک پشاور میں پاکستان کے سب سے بڑے جھنڈے کے لہرانے کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں‘ڈیورنڈ لائن عبور کرتے وقت پاسپورٹ اور ویزہ لگاتے ہیں لیکن دلی اورعملی طور ڈیورنڈ لائن کو سرحد نہیں مانتے ہیں۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری اکرم شاہ خان نے مارک گراسمین کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان اس لکیر نے دریائے آمو سے لے کر اباسین تک پھیلے ہوئے پختون قوم کو تقسیم کردیا ہے‘ اس کے متعلق فیصلے کا اختیار صرف دونوں طرف کے پختونوں کو ہے۔محمود خان اچکزئی جب حکومت میں نہیں ہوتے تو پختون حقوق کے لیے گرم تقریریں کرتے ہیں‘ افغانستان جاکر وہاں کی حکومت سے وفاداری جتاتے ہیں‘ پختونوں کے اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار بنتے ہیں۔

اکثر دریائے آمو سے اباسین تک پختونوں کی تقسیم کا رونا روتے ہیں، ’’چترال سے بولان تک ایک پختونستان‘‘ کا نعرہ لگایا کرتے تھے لیکن جب فاٹا اور خیبر پختونخوا کے انضمام کی بات ہو ئی ہے تو اس کی مخالفت کر دی ۔

پختون قوم پرستی کی سیاست سے صرف چند خاندانوں کو فائدہ ہوا، وہ اسمبلیوں اور وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے‘اپنے لوگوں کو سرکاری ملازمتیں دلواتے رہے۔قوم پرست پارٹیوں کی اس دوغلی پالیسیوں نے پوری پختون قوم کو پاکستان میں مشکوک بنانے کی راہ ہموار کی ۔

مولانا فضل الرحمان نے مانسہرہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ سرحد قرار دیا‘وہ شاید طالبان کو خوش کرنا چاہتے ہیں حالانکہ جو لیڈر فاٹا اور خیبرپختونخوا کے انضمام کا مخالف ہو وہ افغانستان اور پاکستان کے وسیع تر اتحاد کا حامی کیسے ہو سکتا ہے۔ اس معاملے میں پختون مذہبی قیادت اور قوم پرست قیادت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

اس تنازعے پر قوم پرست رہنما‘ قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب شیرپاؤ کا موقف خاصا مثبت ہے ‘انھوں نے افغانستان ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اس وقت اتنا اہم نہیں ہے‘ بلکہ اس وقت افغانستان اور پاکستان کو دیگر اہم ترین مسائل درپیش ہیں۔

ان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دونوں ملکو ںکے درمیان باہمی اعتمادکی فضاء بحال کرکے باہمی تجارت اور دیگر امور حل کرنا زیادہ اہم ہیں‘ڈیورنڈ لائن سو سال سے زیادہ عرصہ ہوا ، دونوں ملکوں کے درمیان سرحد اور ابھی تک کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا‘ اس لیے اس وقت اس مسئلے کو چھیڑنا خواہ مخواہ حالات کو الجھانا ہے ‘اس وقت ان مسائل کو چھیڑنا چاہیے جو خطے کو درپیش ہیںجن میں اس وقت پختونوں کا سب سے اہم مسئلہ امن کا قیام ہے‘‘۔

بدقسمتی سے بعض نام نہاد پختون قوم پرستوں نے ’’ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے‘‘ کے نعرے کو قوم پرستی کی کسوٹی قرار دیا ہے ‘حالانکہ پختون قومیت  کا اس وقت بنیادی مسئلہ پاکستان کے اندر پختونوںکو تقسیم کرنے والی پالیسی کوختم کر کے ایک متحدہ پختون صوبے کا قیام ہے ‘ وفاق پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اس صوبے میں صحیح مردم شماری اور آئینی حقوق و معاشی وسائل پر اختیار حاصل کرنا ہے۔

گلوبلائزیشن اور یک قطبی (Uni Polar) دنیا میں پختونوں کے حقوق کے لیے نئے انداز میں جدوجہد کرنا ہے ‘افغانستان کے پختونوں کے ساتھ ریاست پاکستان کے مفادات کے عین مطابق معاشی‘سیاسی اور سماجی تعلقات بہتر بنانا ہے ‘آج کی قوم پرستی کا ایجنڈا یہ ہی ہو سکتا ہے۔

سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور جو ممکن ہے اس کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے‘کھیلنے کے لیے چاند کا مطالبہ کسی با شعور سیاست کو زیب نہیں دیتا‘جہاں تک پختون قوم کی تقسیم کا سوال ہے تو اس خطے میں پنجابی‘بلوچی‘بنگالی‘ازبک ‘کشمیری ، عرب ‘کرد‘ تاجک اور ترکمان سب قومیتیں تقسیم ہیں ‘دو ملکوں میں تقسیم ہونے سے کوئی قوم ختم نہیں ہوتی ‘قوم کی تعریف میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ وہ لازمی ایک ہی ریاست کے باشندے ہوں گے ‘قوم طویل تاریخی مرحلوں سے گزر کر وجود میں آتی ہیں ‘قومی ریاستیں توکچھ عرصہ قبل وجود میں آئی ہیں‘پختون دو ریاستوں میں رہ کر بھی پختون ہی رہیں گے۔

ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کے مزید حقائق اوراس کا حل کیا ہو‘ اس کا انشا اللہ آیندہ کالم میں جائزہ لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔