یوکرائن کا بحران

عبد الحمید  جمعـء 21 جنوری 2022
gfhlb169@gmail.com

[email protected]

یوکرائن یورپ کادوسرا بڑا ملک ہوتے ہوئے بھی ایک غریب ملک ہے۔ دنیا کے امن کو یوکرائن کی ابھرتی دھماکا خیز صورتحال سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ مغرب اور امریکا نے روس پر الزام لگایا ہے کہ ہزاروں مسلح روسی فوجی یوکرائن کی سرحد پر پہنچ کر حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔یوکرائن اُنیس سو نوے کی دہائی میں آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہونے سے پہلے سوویت یونین کا حصہ تھا۔

آزادی کے حصول کے بعد امریکا اور مغرب کی کوشش ہے کہ یوکرائن کو روس سے دور کر کے یورپین یونین اور نیٹو کا حصہ بنا دیا جائے۔ادھر روس،امریکا اور مغرب کی اس خواہش کو اپنی ملکی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور ہر طریقے سے اس توسیع کے آگے بند باندھنا چاہتا ہے۔

یوکرائن کی صورتحال نے اس وقت خطرناک موڑ لے لیا جب 2014کے آخری مہینوں میں روس نے یوکرائن کے علاقے کریمیا کو اپنے اندر ضم کر لیا۔کریمیا کو یوں ضم کرنے کے چند ہی ہفتوں کے اندر یوکرائن کا مشرقی علاقہ DANBASS REGIONبھی عملاٍٍ ًروس کے زیرِ اثر چلا گیا۔

26مارچ2021 کو مشرقی یوکرائن کے روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے چار یوکرینی فوجیوں کو مار دیا۔امریکا اور مغرب نے ان ہلاکتوں کی ذمے داری روس پر ڈالی۔ یوکرینی فوجیوں کی یہ ہلاکتیں 2020کے اس معاہدے کی خلاف ورزی تھی جو بہت تگ و دو کے بعد حاصل ہوا تھا اور جس کے بعد ایک سال بہت امن سے گزر گیا تھا۔یوکرین نے روس پر بغیر کسی اشتعال ،جنگی صورتحال پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ روس کے ہزاروں مسلح فوجی،بہت سے ٹینک اور کثیر تعداد میں میزائل لانچرز یوکرینی سرحدپر حملے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔

ادھر روس کا کہنا ہے کہ امریکا،مغرب اور ان کے اتحادی خواہ مخواہ جنگی ہسٹیریا کو ہوا دے رہے ہیں۔یوکرائن کو یوں تو کئی قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن آبادی کے اندر واضح تقسیم اس ملک کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس ملک کی آبادی دو واضح دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ مغربی یوکرائن کے لوگ خودکو صرف یوکرینی سمجھتے ہیںاور اپنا مستقبل یورپین یونین کے ساتھ دیکھتے ہیں۔مشرقی یوکرین پر روس کی چھاپ بہت گہری ہے۔اس علاقے کی آبادی کی اکثریت خودکو روس کا حصہ اور روسی تہذیب سے جوڑتی ہے، ان کی زبان بھی روسی ہے۔ یہاں کے علیحدگی پسند یوکرین کی حکومت کو مغرب کا غلام سمجھتے ہیں۔

یوکرائن روسی دباؤ سے نکلنے کے لیے نیٹو کی ممبر شپ کا امیدوار ہے۔ یوکرائن حکومت کا خیال ہے کہ نیٹو کی رکنیت حاصل ہو جانے سے نیٹو افواج اس کا دفاع کریں گی اور اسے روسی دباؤ سے چھٹکارا مل جائے گا۔ روس،یوکرائن کی نیٹو رکنیت کو اپنی سلامتی اور معاشی مفادات کے لیے براہِ راست خطرہ سمجھتا ہے۔

روس یہ بھی سمجھتا ہے کہ اس رکنیت کے مل جانے کے بعد نیٹو افواج اس کی سرحدوں پر آ جائیں گی اور یہ روس کو کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ روس نے یوکرائن میں کئی ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔روس کی بہت سی پٹرولیم مصنوعات یوکرین سے گزر کر دنیا میں پہنچتی ہیں، اس لیے روس کو یورپین یونین،نیٹو اور امریکا کا یوکرین تنازعہ میں براہِ راست دخل اندازی کرنا ذرا نہیں بھاتا۔ روس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سوویت یونین تحلیل کرتے وقت آخری سوویت سربراہ گورباچوف اور امریکی سربراہ ریگن کے درمیان ایک ان لکھا معاہدہ طے پایا تھا کہ یورپ اور نیٹو کی سرحدوں کو کبھی بھی توسیع نہیں دی جائے گی۔

اس طرح روس اور اس کے زیرِ اثر ممالک کو سلامتی کے کسی خطرے سے دوچار نہیں کیا جائے گا۔ مغرب اور امریکا کسی ایسے معاہدے یا انڈر اسٹینڈنگ سے انکار کرتے ہیں۔برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک نے ایک مضمون میں روس کے اس دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔یہ بات البتہ دلچسپ ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دو دفعہ یورپین یونین نے پرانے وارسا پیکٹ کے ممالک کو رکنیت دی ہے۔ پہلی قسط میں1992میں پولینڈ،چیک ری پبلک اور ہنگری کو ای یو کی ممبر شپ دی گئی اور دوسری قسط میں استونیا، لیٹویا،لیتھوانیا،بلغاریہ اور رومانیہ کو ممبر شپ دے کو یونین کی سرحدوں کو وسعت دی گئی۔

امریکا ابھی تک دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے۔امریکا چاہے تو دنیا کے بہت سے  تنازعات حل ہو سکتے ہیں لیکن حل میں مددگار ہونے کے بجائے اس نے ہر طرف آگ لگائی ہوئی ہے۔ امریکا پوری دنیا کے تین مقامات پر بہت دلچسپی رکھتا ہے۔امریکا کی پہلی ترجیح یورپ ہے۔امریکی سفید فام لوگ یورپی نسل سے ہیں، اس لیے یورپ سے ان کی جذباتی وابستگی قدرتی امر ہے۔

یورپ خصوصاً برطانیہ  امریکا کے فطری پارٹنر ہیں۔امریکا کی دوسری ترجیح شمال مشرقی ایشیا ہے۔ شمال مشرقی ایشیائی ممالک بشمول آسٹریلیا چین کے خلاف بند باندھنے کے لیے بہت اہم ہیں۔پچھلی دو تین دہائیوں میں بھارت نے بھی کوشش کرکے امریکا کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ بھارت کو اہمیت اور سہارا دیا جائے تو وہ چین کے خلاف ایک مضبوط اور موثر دیوار بن سکتا ہے۔ تیسرا علاقہ جو امریکی ترجیحات میں بہت اہم ہے وہ ہے مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کا علاقہ۔ یہ علاقہ تیل کی دولت سے مالامال ہے اور علاقے کا سارا تیل خلیج فارس سے مشرق و مغرب روانہ کیا جاتا ہے۔

یہ دو ایک بڑی بڑی وجوہات ہیں جو مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کو امریکی ترجیحات میں  بہت اوپر رکھتی ہیں۔تینوں ترجیحات میں گو امریکا کی پہلی ترجیح یورپ ہے لیکن یورپ کی سلامتی کو فی الحال کہیں سے کوئی خطرہ نظر نہیں آتا، اس لیے سوال ابھرتا ہے کہ یوکرائن کے مسئلے پر اتنی دھماکا خیز صورتحال کیوں ہے جو دنیا کے امن کو تہہ و بالا کر سکتی ہے۔

موجودہ جھگڑے کی وجہ یورپین یونین کی توسیع پسندی ہے۔یورپ مختلف حیلوں بہانوں سے روس کو کمزور کرنے اور نیچا دکھانے پر تُلا ہوا ہے۔امریکا اور یورپین یونین جمہوریت کے داعی بنتے ہیں لیکن آزاد پالیسیوں کی حامل جمہوری حکومتوں کے تختے الٹنا ان کا پسندیدہ کھیل ہے۔

وہ ایشیا،افریقہ اور جنوبی امریکا میں آمروں کی حکومتوں سے بہت خوش ہوتے ہیں کیونکہ ایک فردِ واحد کے ذریعے پورے ملک کو قابو کر لیتے ہیں۔ای یو یوکرائن میں بھی ایسی ہی جمہوریت کا فروغ چاہتا ہے۔موجودہ بحران اس وقت کھڑا ہوا جب مئی 2014میں بخارسٹ میں یورپین یونین نے اپنے اعلامیہ میں یوکرائن اور جارجیا کو ممبرشپ کی دعوت دیتے ہوئے خوش آمدید کہا۔اس اعلامیے نے آگ لگا دی۔جب پہلی اور دوسری قسط میں یورپین یونین نے مشرقی یورپ کے کئی ممالک کو ممبرشپ دی، اس وقت روس بہت کمزور تھا اور کچھ کر نہیں سکتا تھا۔اب روس پہلے سے زیادہ طاقتور ہے اور پیوٹن جیسا تیز طرار، مضبوط اعصاب کا مالک شخص سربراہ ہے۔

صورتحال بظاہر اتنی بگڑ چکی ہے کہ ایک چھوٹی سی غلطی عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے لیکن گہری نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا،یورپ اور روس آپس میں بڑی جنگ چھیڑ کر اپنی توانائیاں ضایع نہیں کریں گے۔مغربی قوتیں  اسلام کو ہی اپنا اصلی دشمن گردانتی ہیں۔روس اور مغرب کا اس وقت کوئی بڑا نظریاتی اختلاف نہیں ہے۔ روس میں عیسائیت آزاد ہو چکی ہے۔امریکا کے سامنے چین سب سے بڑا چیلنج ہے، اس لیے امریکا بھی اپنی توانائیاں یورپ میں ضایع نہیں کرنا چاہے گا ، امریکی وزیرِ خارجہ  یوکرین کے دورے پر ہیں۔جرمنی اور چند مشرقی یورپی ممالک توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے روس کی گیس پر انحصار کرتے ہیں، اس لیے بظاہریہ جھگڑا کہیں دور جانے والا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔