میرا سلام کہیو

ڈاکٹر یونس حسنی  جمعـء 21 جنوری 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

پچھلے سال کی بات ہے۔ ہم نے ایک رسالے کے لیے سالانہ چندہ ارسال کیا اور پرچے کو اپنا ڈاک کا پتہ ارسال کردیا۔ چند دن بعد ہمارے نام’وی پی‘ آئی۔ ہم نے خوشی خوشی وی پی وصول کی اور ڈاک کے محترم ہرکارے کو رائج نذرانہ پیش کیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن کے پھر نہ ڈاک آئی نہ ڈاکیہ۔

اس تلخ تجربے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم رسائل منگوانے سے توبہ کرلیتے مگر چونکہ ہماری رہائش تبدیل ہوگئی تھی ، اس لیے خیال ہوا کہ اس علاقے کے ڈاک کے ہرکارے شاید ذمے دار ہوں پھر ہم نے اس سال بھی قسمت آزمائی کی اور وی پی طلب کر لی۔

حسب معمول ڈاکیے صاحب تشریف لائے اور ہم کو وی پی وصول کروائی۔ ہم نے ازراہ احتیاط عرض کیا کہ حضرت آتے رہیے گا اور ہماری ڈاک پہنچاتے رہیے گا۔ فرمانے لگے ضرور کریں گے ، یہ کہہ کرچلتے بنے۔ ہم نے سوچا یہ اگلی بار آئے تو کچھ نذرانہ پیش کردیں گے تاکہ ان کو قتل آمدن کی شکایت اور ہمیں ڈاک سے محرومی میسر نہ ہو۔ مگر ہوا یہ کہ ہم آج تک ان کے منتظر ہیں اور اس طرح راستہ تکتے رہتے ہیں جیسے عشاق کا اپنے محبوب کے سلسلے میں دستور ہے۔ ہم نے طے کرلیا کہ اپنا پیسہ ان کم بختوں پر ضایع کرنا بے کار ہے۔ آیندہ سے ہم وی پی کے چکر میں نہ پڑیں گے مگر صبر اب تک نہیں آیا ہے۔

پھر ہوا یوں کہ شہناز پروین صاحبہ جو شعر بھی کہتی ہیں ، افسانے بھی لکھتی ہیں ، تحقیق کا بھی ذوق ہے اور میرے ساتھ نگارکی ادبی خدمات کے موضوع پر ایم۔فل بھی کرچکی ہیں۔ سینٹ جوزف کالج میں پروفیسر رہیں ، انتہائی شائستہ اور خوش اطوار خاتون ہیں۔

موصوفہ نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ایک ناول لکھا ہے۔ جو تیسری کوشش میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ مجھ سے اپنے تعلق کی بنا پر یہ ناول ’’ کتنی برساتوں کے بعد ‘‘ مجھے بھی ارسال کیا۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب یہ ناول مجھے ڈاک کے ذریعے نہیں دستی موصول ہوا۔ لانے والے تھے جناب شہزاد سلطانی۔ ان سے میری یہ پہلی ملاقات تھی۔ علیک سلیک کے بعد ناول مجھے تھمایا۔ تقسیم کاری کا یہ مشغلہ شاید وہ علم و ادب کی خدمت سمجھ کر انجام دیتے ہیں اپنی موٹرسائیکل پر تیز رفتاری سے تقسیم کاری کی خدمات انجام دیتے ہیں اور ترسیل کی تمام خدمات سے زیادہ چابک دستی سے یہ فرض انجام دیتے ہیں مجھے ناول کے علاوہ انشا کا تازہ شمارہ بھی عنایت کیا۔ میرے خیال میں محکمہ ڈاک کی ناکردہ کاری کے باعث صفدر صاحب بھی اس کی ترسیل سے مایوس ہوگئے ہوں گے۔ بہرحال ایک عرصہ بعد پرچہ ملا اور میں اس سے بھی مستفید ہوا۔

شہزاد سلطانی صاحب نے بتایا کہ ایکسپو سینٹر جا رہے ہیں جہاں نمائش کتب چل رہی ہے میں ان کے اس ادبی ’’ذوق و شوق‘‘ سے بڑا متاثر ہوا۔ شاید اسی وجہ سے انھوں نے یہ تقسیم کاری کا مشغلہ اختیار کیا جو لکھنے اور پڑھنے والوں کے درمیان رابطے کا بڑا ذریعہ ہیں، میں نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ ایک اور صاحبہ ثروت سلطانہ ثروت جو پڑھنے لکھنے کے مرض میں مبتلا ہیں اپنی دو ایک کتابیں مجھے ارسال کرنا چاہتی تھیں انھوں نے بذریعہ ڈاک مجھے بھیجیں مگر وہ اس نوٹ کے ساتھ انھیں واپس مل گئیں کہ اس پتے پر اس نام کا شخص میسر نہ آسکا۔

ہم معروف ہوں یا نہ ہوں فلیٹ بڑے معروف ہیں، ان کی رسائی میں کوئی دشواری نہیں اور ہمارے فلیٹ کا بھی حال یہ ہے کہ غریب خانہ ہے موجود ہر بلا کے لیے مگر بلا نے سرے سے ادھر آنا ہی گوارا نہیں کیا اور اس کے لیے صرف یہ بہانہ بنایا کہ مکین مفقود الخبر ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کتابیں انھوں نے ثروت سلطانہ صاحبہ کو واپس پہنچا دیں۔

ہم نے شہزاد سلطانی کے ذوق و شوق دیکھتے ہوئے ثروت صاحبہ کو فون کیا کہ ایک مرد شریف آپ کے کام آ سکتے ہیں اور ان کا فون نمبر یہ ہے ان سے رابطہ کرلیجیے وہ کتابیں مجھ تک پہنچا دیں گے۔ ثروت سلطانہ صاحبہ بھی شاید ادھار کھائے بیٹھی تھیں انھوں نے فوراً شہزاد سلطانی کو فون کیا وہ میرے یہاں سے اٹھ کر ابھی ایکسپو نہیں پہنچے تھے کہ پکڑے گئے۔ ثروت صاحبہ نے ہنگامی طور پر کتابیں مجھ تک پہنچانے کو کہا اور وہ بے چارے دوسرے روز پھر غریب خانے پر تشریف فرما ہوئے۔

ثروت سلطانہ صاحبہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے ہیں یعنی کراچی بیش تر جامعات اور اعلیٰ کالجوں میں تدریس کے فرائض انجام دے چکی ہیں اب اس شغل سے سبکدوش ہو چکی ہیں مگر لکھنے لکھانے کی لت ایسی ہوتی ہے کہ:

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

موصوفہ جتنے تعلیمی اداروں کو فیض پہنچا چکی ہیں اس سے زیادہ کتابیں لکھ چکی ہیں اور مختلف اصناف و موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے۔ تقریباً 35 کتابوں کی مصنفہ ہیں جس میں شاعری، افسانہ نگاری، ادب الاطفال، محاورے، کہاوتیں اور ضرب الامثال کو شعروںکو شعروں کے قالب میں ڈھالنے کی مساعی تک شامل ہیں۔ اس سلسلے میں انھیں بعض ادبی اعزازات بھی حاصل ہوئے جو عام طور پر ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کا مقدر نہیں بنتے۔

ادبی خدمات کے ذیل میں شہزاد سلطانی کی کاوش کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکے گا کیونکہ یہ خالقین ادب اور ان سے مستفید ہونے والوں کے درمیان رابطہ کی مفید کڑی ہیں۔

یہی دیکھ لیجیے کہ ثروت سلطانہ صاحبہ کا فون ملتے ہی وہ ان تک پہنچ گئے۔ ثروت سلطانہ صاحبہ نے انتہائی سیر چشمی سے اپنی چھ سات کتابیں ان کے ذریعے مجھے بھیج دیں۔ میں ان کے ہائیکو کے مجموعے “5,7,5”پر اظہار خیال کرچکا ہوں اور ملک کی معروف ادبی شخصیات نے ان کی ذات اور ان کے کام کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ان کے لیے آسودگی کا سبب ہو سکتا ہے۔ کہاوتوں کی ڈکشنری اور ضرب المثل اشعار محنت طلب کام تھا جسے انھوں نے بڑی خوبی سے انجام دیا ہے۔ بچوں کے لیے ان کی کتاب ’’اچھی سچی باتیں‘‘ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی انعام یافتہ ہے ویسے بھی انھیں متعدد اعزازات سے نوازا جا چکا ہے جس کی وہ مستحق تھیں۔

ان کے بارے میں دانشوروں نے جو کچھ لکھا ہے اسے انھوں نے یکجا کرکے شایع کردیا ہے اور اس کتاب کا نام ہے ’’ لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا ‘‘ علم و ادب کی دنیا کے اتنے اور ایسے لوگ ان کی کاوشوں پر اظہار خیال کرچکے ہیں اور ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ذہنی آسودگی کے لیے وہ اچھا ٹانک ہے اور ادبی و علمی کاموں کا حاصل ذہنی آسودگی ہی تو ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ رہا محکمہ ڈاک تو اس کا شکوہ بے کار ہے۔

ایں خانہ ہمہ آفتاب است

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔