ملکی معیشت کا استحکام بنیادی ترجیح

ایک مستحکم معیشت ہی عملی طور پر عوام کو زندگی کی بنیادی اقدار سے جوڑنے پر مامور ہے


Editorial January 22, 2022
ایک مستحکم معیشت ہی عملی طور پر عوام کو زندگی کی بنیادی اقدار سے جوڑنے پر مامور ہے۔ فوٹو:فائل

LONDON: وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی، اصلاحات و خصوصی اقدامات اسد عمر نے کہا ہے کہ کورونا وبا کے باوجود گزشتہ سال پاکستان کی معاشی شرح نمو5.37 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو گزشتہ14سال میں ایک ریکارڈ ہے۔

جمعرات کی سہ پہر فیصل آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے عالمی جریدے ''اکانومسٹ '' کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جریدے نے مختلف اوقات میں کیے گئے تین سرویز کے حوالے سے اپنے نار میلسی انڈیکس میں بتایا ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جو کورونا کی کارکردگی میں دنیا میں پہلی تین پوزیشن میں ٹاپ تھری نمبرز میں شامل رہا بلکہ گزشتہ سال پہلے نمبر پر آیا ہے۔

معروضی اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے بلاشبہ یہ نوید انتہائی خوش آیند ہے، اس وقت ضرورت ایسی خوشخبریوں کی ہے جو اقتصادی، معاشی اور مالیاتی شعبوں میں بریک تھرو اور استقامت اور بہتری کی طرف سے عوام کو ملتی ہیں، تاہم عوام کو ملنے والی خوشی اس ریلیف، مراعات، صنعتی، معاشی اور برآمدی پالیسیوں کی عوامی قبولیت کی شکل میں عوام تک آتی ہیں۔

اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عوام ''سرف ریسیونگ اینڈ'' پر ہیں، انھیں ذرایع ابلاغ سے اچھی خبریں ملتی ہیں اور وہ ملکی اقتصادیات میں ترقی اور استحکام کے دل خوش کن منظرنامہ پر معیشت کی بہتر پیش رفت سے ملکی اقتصادیات میں اچھی اور بنیادی پیش قدمی دیکھتے ہیں، حکومت نے اپنی پالیسیوں کے حوالے سے قومی استقامت کو اولیت دی اور ہمیشہ معاشی فلاح و بہبود اور صنعتی، معاشی اور اقتصادی پھیلاؤ کو یقینی بنانے کا سوچا ہے۔

اس وقت ضرورت بھی لاحاصل شماریاتی گورکھ دھندے سے نکلنے کی ہے، عوام اسی منظرنامہ پر ہی یقین کریں گے جن کے اثرات یا جمہوری اور حکومتی ثمرات ان کی جھولی میں آ گریں گے یا ان کے غریب خانوں کی دہلیز تک پہنچیں گے، عوام نے طویل عرصے سے ایک شدید دباؤ دیکھا ہے اور غربت و مہنگائی کے مسائل نے انھیں بے حد پریشان کیا ہے، مہنگائی کا اژدہا ابھی تک عوام کا پیچھا کررہا ہے، اس کے سر کو کچلنے کی ضرورت ہے، ملک کو ایک منصفانہ، مساویانہ اور پائیدار اقتصادی نظام درکار ہے۔

اسے شرح سود میں اضافے سے زیادہ اس بات سے دلچسپی ہوگی کہ نئی نسل کو تعلیم و صحت کی جملہ سہولتیں میسر ہوں، ٹرانسپورٹ کا سسٹم ایک باوقار شہری تمدن سے مربوط ہو، عوام کو بجلی، گیس، غذائی اشیا، عوام کو مکان کے کرائے اور زندگی کا تحفظ حاصل ہو، ملکی سیکیورٹی کے تمام تقاضے پورے ہوں اور ہر شہری سکون قلب کے ساتھ زندگی کے دن گزارتا ہو۔

جرائم بے انتہا بڑھ چکے ہیں، معاشرہ میں بہیمانہ جرائم، کرمنل رجحان، درندگی بڑھ گئی ہے، ملکی سماج بربریت، لاقانونیت سے پاک ہو، عدل و انصاف کی ملکی معاشرے کو بہت زیادہ ضرورت ہے، یہ اطمینان حکومت اپنے صائب اقدامات کے ذریعے عوام تک پہنچا سکتی ہے، ایک روادار سیاسی ماحول کی نمو میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔

اقتصادی اور صنعتی ترقی کی حکمت عملی کو عوام کی زندگیوں سے مشروط کیے بغیر ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، آج وزیر ترقی نے عوام کو خوش کردیا ہے، اسی طرح ارباب اختیار منظرنامہ کو دشنام طرازی، محاذ آرائی، نعرہ بازی، ٹکراؤ، فیک نیوز اور افواہوں سے نکال کر تعلیمی، علمی، فکری اور انسانی فلاح سے جڑی ہوئی سوچ سے مربوط کریں۔

اس میں شک نہیں کہ کورونا سے نمٹنے میں عوام نے بے پناہ استقامت دکھائی ہے، اسے ایمی کرون کا سامنا تھا کہ اچانک پھر سے کورونا وائرس ٹپک پڑا اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ کورونا کے حملے شدید ہونگے، ملک کو جو ترقی، پیش رفت نصیب ہوئی ہے اسے محفوظ بھی رکھنا ہے، کورونا سے بچاؤ کے لیے عوام کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں، ان تک صرف ماسک، فاصلہ اور اجتماع سے بچنے کی ہدایت پر عمل درآمد، تشہیری ہدایات اور آگہی کے سوا کیا ہے؟

لہٰذا حکومت کورونا سے نمٹنے کے لیے عوام کو ہر ممکن سہولت اور ریلیف مہیا کرے، عوام کو مہنگائی سے نجات ملنی چاہیے، گرانی نے متوسط طبقہ کو زمین بوس کردیا ہے، جو نچلے طبقات اور دیہاڑی والے محنت کش ہیں ان کے لیے گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے، ہر شے مہنگی ہوگئی ہے، بیروزگاری میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس کے باعث گھریلو اور سفید پوش افراد نے گھر کے باہر روزگار کا وسیلہ تلاش کرلیا ہے، بچے گھر کے سامنے پتھارے لگا چکے ہیں، انھیں ملک گیر صنعتی ترقی چاہیے، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار میرٹ پر ملنے کے امکانات روشن ہونے چاہئیں، گداگری کو فروغ ملا ہے، اگر ملک میں غربت کم ہورہی ہے، لوگوں کی آمدنی بڑھ رہی ہے تو گداگری کو روکنے کے اقدامات میں تیزی لائی جائے، خواتین کو معاشی استعانت دینے کے امکانات وسیع کیے جائیں۔

اسد عمر نے مزید کہا کہ حکومت کی معاشی کارکردگی نے اپوزیشن کے ان بیانیوں سے بھی ہوا نکال دی ہے ، جن میں حکومت کی نا اہلی اور معیشت کی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا۔ آج اپوزیشن کا بیانیہ پاش پاش اور بری طرح پٹ کر زمین بوس ہوگیا ہے انھوں نے مزید کہا کہ ایک طرف کورونا سے جہاں دنیا کی معیشتیں متاثر ہوئیں، وہیں پاکستان کی معاشی حکمت عملی انتہائی بہترین رہی جس سے نہ صرف ہمارا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا بلکہ ہماری شرح نمو میں بھی تیزی سے ترقی ہوئی جو عوام کے لیے بڑی خوشخبری ہے۔ دنیا کے ممالک نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان نے جہاں کورونا کا مثالی طریقے سے مقابلہ اور اس کے نقصانات کو کم سے کم کیا ہے وہیں ہر شعبہ میں ترقی بھی جاری رکھی ہے۔

اسد عمر نے بتایا کہ حکومتی اقدامات سے پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں شاندار اضافہ ہوا ہے اور قبل ازیں فی کس سالانہ آمدنی1457ڈالر تھی وہ209ڈالر بڑھ کر سال21۔ 2020 میں 1666ڈالر فی کس ہو گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سال 21۔ 2020 میں پاکستان کی سالانہ معیشت 55488ارب روپے تک جا پہنچی جو327بلین ڈالر کے قریب بنتی ہے اور اس طرح اس میں بھی پچھلے سالوں کی نسبت16.3فیصد تک بہتری آئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت میں نئے سیکٹر بھی بہت تیزی سے ترقی کررہے ہیں جس کے ساتھ ساتھ چونکہ ٹیکنیکل تعلیم بھی معیشت کا ایک بہت بڑا حصہ ہے اسی لیے نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی میں آج ان تمام تر چیزوں کو دیکھا گیا۔

دی اکانومسٹ نارملسی انڈیکس میں کورونا وبا کے دورا ن اور کورونا کے بعد معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے حوالے سے50 ممالک کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جس میں پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو تینوں درجوں (رینکنگز) میں شروع کی تین پوزیشنوں میں شامل رہا ہے۔ پہلے جائزے میں پاکستان تیسرے جب کہ دوسرے میں پہلے نمبر پر تھا۔ نئی درجہ بندی میں مصر پہلے نمبر پر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ملکی معیشت ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے، اپوزیشن کے نام نہاد پروپیگنڈے کے مطابق سیاسی بساط پر موجود حکومتی اہلکار کوئی بریک تھرو پیدا نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے اہداف اپوزیشن کو ناکام بنانے پر مرکوز ہیں، کوئی چارہ گر ملک کے مستقبل، سیاسی استحکام کی نہیں سوچ رہا، حکومتی ارکان کی کوشش ہے کہ اپوزیشن اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کرنے سے معذور ہو، اس کے لیے حکومت کی ساری قوت سسٹم کو بے وقعت، کمزور اور مضمحل کر رہی ہیں، ملک اندر سے اپنی معروف سیاسی اور اقتصادی مرکزیت کھوتا جا رہا ہے۔

ایک مستحکم معیشت ہی عملی طور پر عوام کو زندگی کی بنیادی اقدار سے جوڑنے پر مامور ہے، ملک ایک مستحکم معیشت، سیاست، سفارت کاری اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے خواب کی تعبیر پر کوئی پیش رفت نہیں کر سکا، اپوزیشن کے انداز نظر کے مطابق ہر ایشو پارلیمنٹ سے چھپ کر کیے جا رہے ہیں، ایکٹ کو مکمل قانون سازی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، اس محاذ آرائی سے ملک کا نقصان ہورہا ہے، بالادست اور مقتدر سیاسی قوتیں جمہوری روح کی بیداری کے لیے اپنا کردار ادا کریں ورنہ سیاسی اور معاشی طور پر پاکستان اقوام عالم میں اپنی جگہ نہیں لے سکے گا، آج افغانستان اسلامی ممالک سے درخواست کر رہا ہے کہ اسے تسلیم کیا جائے تاکہ وہ معاشی اور مالی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔ پاکستان کو خطے میں ایک اہم رول ادا کرنا ہے۔

اس کے لیے اقتصادی استقامت اور سیاسی ارادہ ہی ملک کے لیے راہ ہموار کرسکتا ہے، سیاسی رہنماؤں سے التماس ہے کہ وہ بیان بازی اور دشنام طرازی سے گریز کریں۔ ملکی معیشت کو عوام کی خود کفالت اور استحکام کے لیے اخلاقی، سیاسی اور معاشی طاقت عطا کریں، ایک مستحکم ملک ہی عوام کے خوابوں کی جمہوری تعبیر ہے جس کے لیے سیاست دانوں اور معاشی ماہرین کو سوچنا چاہیے کہ امریکا اس بات کا اعلان کررہا ہے کہ افغانستان کو ایک حکومت کے تحت متحد نہیں رکھا جاسکتا، دیکھیے بات کہاں پہنچ گئی ہے، ملکی سیاسی زعما، معیشت و سیاست کے مشترکہ مفادات کے لیے اپنے اختلافات ختم کریں ، یہی کامیابی کا راستہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں