بڑے قد کے بونے

محمد مشتاق ایم اے  ہفتہ 22 جنوری 2022
ان سارے سیاسی بڑے لوگوں کے مفادات ہمارے ملک میں محفوظ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ان سارے سیاسی بڑے لوگوں کے مفادات ہمارے ملک میں محفوظ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

رشتے دار کٹوں کی مانند ہوتے ہیں ایک کو باندھیں تو دوسرا کھل جاتا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ ہم نے کہیں پڑھا تھا اور یہ بات شادی بیاہ کے مواقعوں پر قدرے زیادہ سچائی کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کی ناک بڑی نازک ہوتی ہے ذرا ذرا سی بات پر کٹ جاتی ہے۔ شادی اور کہیں تو مرگ کی صورت میں انہیں اپنے رشتے داروں کو راضی کرنا پڑتا ہے اور جب ایک کو راضی کرتے ہیں تو کسی دوسرے کا منہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے شاید کسی نے ان ہی حالات کا سامنا کرتے ہوئے یہ بات کہی ہوگی کہ ’’رشتے دار کٹوں کی مانند ہوتے ہیں، ایک کو باندھیں تو کوئی دوسرا کھل جاتا ہے‘‘۔

لیکن ہم آج ان کٹوں پر بات نہیں کر رہے جو شادی یا مرگ کی صورت میں کھل جاتے ہیں بلکہ ہم تو ان کٹوں کو باندھنے کی فکر میں ہیں جو ہر دوسرے روز ہمارے گھروں میں موجود ٹی وی اسکرینوں یا ہر صبح اخبارات کی شہ سرخیوں میں کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔ ہم ایک دن کسی کو باندھتے ہیں تو اگلے دن کوئی اور کھلا پڑا ہوتا ہے۔ اب ہم جائیں تو جائیں کہاں اور اتنے سارے کٹوں کو باندھیں تو کیسے باندھیں؟ ہمارا مطلب ان خبروں سے ہے جو روزانہ بجلی بن کر عوام کی قسمت پر گرتی ہیں اور عوام کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کس پر اعتبار کریں اور کس پر نہ کریں۔ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔ یہی آنکھ مچولی کب سے جاری و ساری ہے۔

اس حوالے سے کبھی کسی جج کی آڈیو/ وڈیو منظرعام پر آرہی ہے تو کبھی مریم نواز کی مختلف آڈیوز سامنے آجاتی ہیں۔ نواز شریف نے جو بھی کیا جیسے بھی کیا وہ آرام سے لندن بیٹھے ہیں۔ زرداری کو کن کن القابات سے نہ نوازا گیا لیکن آج وہ بھی وکٹری کے نشان بنا رہے ہیں اور اگلے الیکشن میں پنجاب کے علاوہ وفاق کو بھی فتح کرنے کے بیانات دے رہے ہیں۔

عمران خان کو لوگ بڑے چاؤ سے لے کر آئے تھے لیکن ان کی بھی اب تک کارکردگی کے حوالے سے جو صورتحال ہے اس پر بھی خبروں کے کئی کٹے کھل چکے ہیں۔ فضل الرحمن نے پھر کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات میں میدان مار لیا ہے اور ان کی بھی ستے خیراں ہے (مطلب سب ٹھیک ہے)۔ ٹی ایل پی اپنی سیاسی اور مذہبی زندگی کے مختلف مراحل سے گزر کر پھر میدان میں کھڑی ہے اور انتخابات کےلیے پر تول رہی ہے۔ ق لیگ محض چند سیٹوں کے بل بوتے پر تحریک انصاف کی حکومت کو پہلے دن سے بلیک میل کر رہی ہے اور پنجاب اس کے قبضے میں ہے۔ ایم کیو ایم بھی حکومتی ساتھی ہونے کی وجہ سے بہارکے مزے لوٹ رہی ہے۔ پرانے سیاسی لیڈروں کی اولاد نئے دم خم سے میدان میں اتر چکی ہیں۔

ہر پارٹی کے بڑوں کی ’’ستے خیراں‘‘ ہیں یا تو سارے آپس میں رشتے دار ہیں یا بھائیوں جیسے دوست ہیں۔ بڑے بڑے فنکشنز میں سب اکٹھے ہوتے ہیں، گلے ملتے ہیں، مل کر کھاتے پیتے ہیں اور باہر آکر ایک دوسرے کے خلاف پریس کانفرنس کرکے اپنی حمایتی ورکروں اور بھولے بھالے عوام کی داد سمیٹ لیتے ہیں اور پھر اپنے ورکروں کو اپنی باتوں سے اتنا چارج کرتے ہیں کو وہ مخالف پارٹی کے ورکروں کے ساتھ دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ یہی سلسلہ یا کھیل یہاں شاید ازل سے جاری ہے اور شاید ابد تک چلتا ہی رہے گا، کیونکہ عقل کوئی ایسی چیز نہیں جسے تعویز بنا کر گلے میں لٹکا لیا جائے یا پانی میں گھول کر پی لیا جائے تو ساری حقیقت آشکار ہوجائے۔ اس لیے جب تک جہالت ہے یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

یہ ساری خبریں، یہ آڈیوز اور وڈیوز، یہ پریس کانفرنسیں، یہ کمیشنز، یہ کمیٹیاں، یہ بیانات، یہ سب حقیقتیں نہیں بلکہ سیاسی کٹے ہیں۔ ہم ایک کو باندھتے ہیں تو اگلے دن کوئی اور کٹا کھلا پڑا ہوتا ہے۔ ابھی ہم دوسرے کٹے کو باندھ کر پوری طرح سستا بھی نہیں پاتے کہ تیسرا کھل جاتا ہے۔ الغرض آپ خود غیر جانبداری سے تجزیہ کرکے دیکھ لیجئے کہ جتنی بھی جماعتیں یا ان کے لیڈر اپنے ملک خداداد میں موجود ہیں ان کا کوئی بال بھی بیکا کرسکا ہے؟ جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔

اسی طرح اتنی جماعتوں اور بے لوث خدام کے باوجود کیا عوام کے نچلے طبقے کی صورتحال میں بہتری کے کبھی آثار پیدا ہوئے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ کیا کبھی کسی کمیشن کی رپورٹ کے مثبت اثرات ظاہر ہوئے؟ کیا انکوائری کمیٹیوں کی تجاویز پر عوام کو سکھ کا سانس ملا؟ کیا پنجابی فلموں کے ڈائیلاگ کی طرح کے بیانات سے ملک کی حالت بدلی؟ کیا ان سارے سیاسی بڑے قد کے بونوں کے اقدامات سے چھوٹے (عوام) بونوں کے قد بڑے ہوئے؟ کیا جھوٹ کے پلندوں سے کبھی بھی کامیابی کسی کے قدم چوم سکتی ہے؟ کیا کبھی عالمی اداروں یا سروے کرنے والے اداروں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں ہمارے ملک کو کبھی ٹاپ کے ملکوں میں شمار کیا؟ کیا ملک میں بنائے ہوئے قوانین پر عمل درآمد کی نوبت آئی؟ کیا ملک کے غریب عوام کےلیے سرکاری یا پرائیویٹ اداروں میں کام کروانے پر کرپشن اور سفارش کا سلسلہ ختم ہوا؟ ان سب سوالوں کے جواب نفی میں ہیں اور نفی میں ہی رہیں گے۔

یہاں صرف ایک سوال کا جواب ہاں میں ہے اور وہ سوال ہے کہ کیا ان سارے سیاسی بڑے لوگوں کے مفادات ہمارے ملک میں محفوظ ہیں؟ تو اس کا جواب ہاں میں ہے۔ ان سب سیاسی کٹوں سے کوئی امید رکھنا اپنی بےتوقیری کے مترادف ہے۔ ان حالات کی بدولت ہمارے ملک میں صرف دو طبقات کا وجود قائم ہونے جارہا ہے۔ ایک امیر اور دوسرا غریب۔ تیسرا ’’متوسط طبقہ‘‘ اپنا وجود یا تو کھو چکا ہے یا عنقریب ناپید ہوجائے گا اور یاد رکھیے جب متوسط طبقہ ملک سے ناپید ہوجائے تو پھر غریب اور امیر طبقوں میں سوائے جنگ کے کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا۔ کیونکہ غریب آدمی یہی سمجھتا ہے کہ ہمارا حق امیر طبقے نے غصب کرلیا ہے۔ یہ بات یقیناً تکلیف دہ اور رسوائی کی ہے مگر بات تو سچ ہے۔ ہم کریں تو کیا کریں ایک کٹا باندھتے ہیں تو دوسرا کھل جاتا ہے اور ان بڑے قد کے بونوں سے اس کے علاوہ اور امید بھی کیا رکھی جاسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔