- پختونخوا؛ سرکاری اسکولوں میں کتب کی عدم فراہمی، تعلیمی سرگرمیاں معطل
- موٹر وے پولیس کی کارروائی، کروڑوں روپے مالیت کی منشیات برآمد
- شمالی کوریا کا کروز میزائل لیجانے والے غیرمعمولی طورپربڑے وارہیڈ کا تجربہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹی20 آج کھیلا جائے گا
- بابر کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا مشورہ
- موبائل فون صارفین کی تعداد میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی
- گیلپ پاکستان سروے، 84 فیصد عوام ٹیکس دینے کے حامی
- ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے غلط استعمال پر 10کروڑ روپے جرمانہ
- معیشت2047 تک 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وزیر خزانہ
- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
- پاکستان کی سعودی سرمایہ کاروں کو 14 سے 50 فیصد تک منافع کی یقین دہانی
- مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال، عالمی منڈی میں خام تیل 3 ڈالر بیرل تک مہنگا
- انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پر محمد عامر کے ڈیبیو جیسے احساسات
- کُتا دُم کیوں ہلاتا ہے؟ سائنسدانوں کے نزدیک اب بھی ایک معمہ
- بھیڑوں میں آپس کی لڑائی روکنے کیلئے انوکھا طریقہ متعارف
- خواتین کو پیش آنے والے ماہواری کے عمومی مسائل، وجوہات اور علاج
- وزیر خزانہ کی چینی ہم منصب سے ملاقات، سی پیک کے دوسرے مرحلے میں تیزی لانے پر اتفاق
- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
اردو ادب میں نمایاں مقام رکھنے والے مرزا اسد اللہ غالب کا آج 145واں یوم وفات منایا جارہا ہے
اپنی شاعری اور نثر نگاری کی بدولت اردو ادب میں نمایاں مقام رکھنے والے مرزا اسد اللہ خان غالب کا آج 145واں یوم وفات منایا جارہا ہے۔
27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہونے والے مرزا اسد اللہ غالب نے دلی میں پرورش پائی۔ مغل بادشاہ کی جانب سے نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے، غالب ان کا تخلص تھا، جس کا اثر ان کے کلام پر بھی رہا، انہوں نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا تاہم ابتدائی زمانے میں ان کی شاعری میں مہمل گوئی اور فارسی زبان و تراکیب کا عنصر بہت نمایاں رہا لیکن دلی کے بدلتے ہوئے حالات و واقعات نے غالب کی شاعری میں ایک جدت پیدا کی۔
غالب کو مشکل سے مشکل موضوعات کو نہایت سادگی اور سلاست کے ساتھ بیان کرنے کے فن پر کمال حاصل تھا۔ ان کی شاعری رومانیت، واقعیت، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج ہے۔ غالب کے اشعار اپنے اندر متعدد معنی لئے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کسی ایک ہی شعر کو کئی کئی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔
غالب بلاشبہ ایک عظیم شاعر ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی مکتوب نگاری میں بھی ان کی حیثیت انشاء پرداز کی سی ہے اور ان خطوط میں ایسا کوئی انداز نظر نہیں آتا کہ ہم انہیں نثر اردو میں ایک جداگانہ صنف کے بطور شمار کرسکیں۔ غالب کی اجتہادی طبیعت نے ان انفرادی تحریروں کو اجتماعی تحریر بنادیا۔ اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں اپنے زمانہ کی معاشرت اور سیاست کی جانب واضح اشارے بھی ملتے ہیں۔ انہوں نے اردو زبان کے خطوط میں جو سادگی و سلاست پیش نظر رکھی وہ اُن کے فارسی خطوط میں بھی موجود نہیں۔ پھر ان کے حسب موقع اور حسبِ مرتبہ مزاح نے پڑھنے والے کے لئے ان کے خطوط میں دوہری کشش پیدا کردی۔
غالب کو جہان فانی سے کوچ کئے ہوئے آج 145 برس ہوگئے لیکن اپنی شاعری اور نثر میں ااختیار کئے گئے اسلوب کے باعث وہ اب تک کئی نسلوں کو متاثر کرچکے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔