- سابق اولمپئین خواجہ جنید پر تاحیات پابندی لگادی گئی
- غیر معیاری پچ کے باعث چیف گراؤنڈ مین کو عہدے سے ہٹادیا گیا
- نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر اعتراضات
- دہشتگرد عسکریت پسندی کیخلاف ہماری کامیابیاں پلٹنا چاہتے ہیں، وزیراعظم
- لاپتا کانسٹیبل کیس؛ پولیس حکام کو جیل بھیجنے کا وقت آگیا، سندھ ہائیکورٹ
- کراچی، بیوی نے تیز دھار آلے کا وار کرکے شوہر کو زخمی کر دیا
- آٹو میٹک بکنگ اینڈ ٹریول کیلئے ریلوے کی ’’رابطہ‘‘ ایپ متعارف
- بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف
- انڈس موٹرز کا دو ہفتوں کے لیے پلانٹ بند کرنے کا اعلان
- کراچی؛ ایم کیو ایم کا قومی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخاب لڑنےکا فیصلہ
- حکومت کی آئی ایم ایف جائزہ مشن کو شرائط پوری کرنے کی یقین دہانی
- فیفا ورلڈکپ جیتنے کے بعد سب کچھ بدل گیا، میسی
- تاندہ ڈیم میں کشتی ڈوبنے کا واقعہ، جاں بحق طلباء کی تعداد 40 ہوگئی
- موٹروے اسکینڈل؛ سابق وزیر کے پرسنل اسسٹنٹ سے 44 کروڑ کی ریکوری
- نشے میں دھت خاتون کی طیارے میں ہنگامہ آرائی، فضائی میزبان کو مکا مار دیا
- پشاور پولیس لائن دھماکا، ایک المیہ
- چوہدری شجاعت مسلم لیگ ق کے صدر برقرار، الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنا دیا
- کراچی کے صارفین کیلیے بجلی 10روپے 80پیسے فی یونٹ سستی
- ہائی کورٹ ازخود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ
- الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج؛عمران خان کی حاضری استثنا کی درخواست منظور
اردو ادب میں نمایاں مقام رکھنے والے مرزا اسد اللہ غالب کا آج 145واں یوم وفات منایا جارہا ہے
اپنی شاعری اور نثر نگاری کی بدولت اردو ادب میں نمایاں مقام رکھنے والے مرزا اسد اللہ خان غالب کا آج 145واں یوم وفات منایا جارہا ہے۔
27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہونے والے مرزا اسد اللہ غالب نے دلی میں پرورش پائی۔ مغل بادشاہ کی جانب سے نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے، غالب ان کا تخلص تھا، جس کا اثر ان کے کلام پر بھی رہا، انہوں نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا تاہم ابتدائی زمانے میں ان کی شاعری میں مہمل گوئی اور فارسی زبان و تراکیب کا عنصر بہت نمایاں رہا لیکن دلی کے بدلتے ہوئے حالات و واقعات نے غالب کی شاعری میں ایک جدت پیدا کی۔
غالب کو مشکل سے مشکل موضوعات کو نہایت سادگی اور سلاست کے ساتھ بیان کرنے کے فن پر کمال حاصل تھا۔ ان کی شاعری رومانیت، واقعیت، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج ہے۔ غالب کے اشعار اپنے اندر متعدد معنی لئے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کسی ایک ہی شعر کو کئی کئی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔
غالب بلاشبہ ایک عظیم شاعر ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی مکتوب نگاری میں بھی ان کی حیثیت انشاء پرداز کی سی ہے اور ان خطوط میں ایسا کوئی انداز نظر نہیں آتا کہ ہم انہیں نثر اردو میں ایک جداگانہ صنف کے بطور شمار کرسکیں۔ غالب کی اجتہادی طبیعت نے ان انفرادی تحریروں کو اجتماعی تحریر بنادیا۔ اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں اپنے زمانہ کی معاشرت اور سیاست کی جانب واضح اشارے بھی ملتے ہیں۔ انہوں نے اردو زبان کے خطوط میں جو سادگی و سلاست پیش نظر رکھی وہ اُن کے فارسی خطوط میں بھی موجود نہیں۔ پھر ان کے حسب موقع اور حسبِ مرتبہ مزاح نے پڑھنے والے کے لئے ان کے خطوط میں دوہری کشش پیدا کردی۔
غالب کو جہان فانی سے کوچ کئے ہوئے آج 145 برس ہوگئے لیکن اپنی شاعری اور نثر میں ااختیار کئے گئے اسلوب کے باعث وہ اب تک کئی نسلوں کو متاثر کرچکے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔