- بجلی کے بلز میں پی ٹی وی فیس کے 36 ارب 87 کروڑ روپے وصول
- خوراک کی شدید قلت کے باعث ہم بھوک سے مرنے والے ہیں، سری لنکن وزیراعظم
- 1955 ماڈل مرسڈیز بینز14 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز میں نیلام
- رواں مالی سال ترقیاتی بجٹ میں 4 سو ارب روپے کی کٹوتی کردی گئی
- وزیراعلیٰ پنجاب کو عہدے سے ہٹانے کی درخواستیں سماعت کے لیے منظور
- حکومت قبل از وقت انتخابات کراسکتی ہے، خالد مقبول صدیقی
- پنجاب حکومت کو دھچکا؛ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو کام جاری رکھنے کی اجازت
- دعا زہرا کی ساس کی عدالت میں پولیس کیخلاف ہراساں کرنے کی درخواست دائر
- ملک میں بجلی کا شارٹ فال بڑھ کر 6 ہزار580 میگاواٹ ہوگیا
- چیئرمین نیب نے تقرریوں اور تبادلوں پر فوری پابندی عائد کردی
- لیڈی کانسٹیبل اقراء قتل کیس میں نیا موڑ، ایس پی سمیت چاروں ملزمان غائب
- شہبازشریف مقتدر حلقوں سے ڈیڑھ سال کی گارنٹی کی بھیک مانگ رہے ہیں، شیخ رشید
- شعیب اختر نے بالنگ ایکشن غیر قانونی قرار دینے پر سہواگ کو کرارا جواب دے دیا
- پاکستان کیخلاف سیریز اور کامن ویلتھ گیمز کیلئے آسٹریلوی ویمن کرکٹ ٹیم کا اعلان
- عمران خان سے انتظار نہیں ہوگا
- عمر چیمہ کی برطرفی کیخلاف درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا لارجر بنچ تشکیل
- وزیر اعظم شہباز شریف کا ایک روزہ دورۂ کراچی
- پریشر والے گوشت کی فروخت کمشنر کراچی نے نوٹس لے لیا
- سندھ میں گندم کی ذخیرہ اندوزی کیخلاف آپریشن، لاکھوں بوریاں برآمد
- کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر۔۔۔۔!
یوریا کھاد کی قلت کے خلاف کسانوں کا احتجاج

بااثر جاگیرداروں کو یوریا فراہم کیاجارہا ہے،عام کسان بلیک مارکیٹ کے رحم و کرم پر، علی پلھ۔ فوٹو : فائل
کراچی: سندھ کے مختلف اضلاع میں یوریا کھاد کی قلت کے خلاف کسان سراپا احتجاج بن گئے۔
گزشتہ روز کسانوں نے لاڑکانہ پریس کلب کے سامنے یوریا کی قلت کیخلاف احتاج کیا۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ 1765روپے والی یوریا کھاد کی بوری 3000 روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔
کسانوں کا کہنا تھا کہ مجبوراً وہ اس قیمت پر لینے کو تیار ہیں مگر اب یوریا مارکیٹ ہی سے غائب کردی گئی ہے۔ کسانوں کا دعویٰ ہے کہ یوریا کی یہ قلت مصنوعی ہے۔ صورتحال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ کسان کھاد کے ٹرک لوٹنے پر تیار ہوگئے ہیں۔
ضلع شہداد کوٹ میں کسانوں نے پیپلزپارٹی رکن سندھ اسمبلی نوازنادر مگسی کے لیے یوریا لانے والے ٹرک کو روک لیا۔ اس کارروائی میں شامل ایک کسان کا کہنا تھا کہ یہ سب حکومت کی مس مینجمنٹ کا نتیجہ ہے۔ ہم کئی مہینوں سے کھاد کے لیے ترس رہے ہیں جب کہ ان بااثر جاگیرداروں کو پولیس کے پروٹوکول کے ساتھ یوریا فراہم کی جارہی ہے۔
سندھ ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے چیئر پرسن کے ایڈوکیٹ علی پلھ کے مطابق پاکستان میں تین کمپنیاں کھاد تیار کرتی ہیں۔ ان کی مجموعی پیداوار 60لاکھ ٹن کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ اس سال کارٹلز نے بڑی مقدار میں کھاد ذخیرہ کرکے ملک سے باہر اسمگل کردی۔
علی پلھ کے مطابق انھوں نے ہائیکورٹ میں کھاد کی مصنوعی قلت کے خلاف پٹیشن فائل کی ہے۔ ان کے خیال میں وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں نے اس معاملے سے نمٹنے میں نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے بیشتر اضلاع میں صوبائی حکمراں جماعت کے سے تعلق رکھنے والے کاشتکاروں کو یوریا فراہم کیا جارہا ہے جب کہ عام کاشت کاروں کو بلیک مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔