- ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے غلط استعمال پر 10کروڑ روپے جرمانہ
- معیشت2047 تک 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وزیر خزانہ
- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
- پاکستان کی سعودی سرمایہ کاروں کو 14 سے 50 فیصد تک منافع کی یقین دہانی
- مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال، عالمی منڈی میں خام تیل 3 ڈالر بیرل تک مہنگا
- انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پر محمد عامر کے ڈیبیو جیسے احساسات
- کُتا دُم کیوں ہلاتا ہے؟ سائنسدانوں کے نزدیک اب بھی ایک معمہ
- بھیڑوں میں آپس کی لڑائی روکنے کیلئے انوکھا طریقہ متعارف
- خواتین کو پیش آنے والے ماہواری کے عمومی مسائل، وجوہات اور علاج
- وزیر خزانہ کی چینی ہم منصب سے ملاقات، سی پیک کے دوسرے مرحلے میں تیزی لانے پر اتفاق
- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
- خیبرپختونخوا میں بارشوں سے 36 افراد جاں بحق، 46 زخمی ہوئے، پی ڈی ایم اے
- انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں تنزلی، اوپن مارکیٹ میں معمولی اضافہ
- سونے کے نرخ بڑھنے کا سلسلہ جاری، بدستور بلند ترین سطح پر
- گداگروں کے گروپوں کے درمیان حد بندی کا تنازع؛ بھیکاری عدالت پہنچ گئے
یوریا کھاد کی قلت کے خلاف کسانوں کا احتجاج
کراچی: سندھ کے مختلف اضلاع میں یوریا کھاد کی قلت کے خلاف کسان سراپا احتجاج بن گئے۔
گزشتہ روز کسانوں نے لاڑکانہ پریس کلب کے سامنے یوریا کی قلت کیخلاف احتاج کیا۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ 1765روپے والی یوریا کھاد کی بوری 3000 روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔
کسانوں کا کہنا تھا کہ مجبوراً وہ اس قیمت پر لینے کو تیار ہیں مگر اب یوریا مارکیٹ ہی سے غائب کردی گئی ہے۔ کسانوں کا دعویٰ ہے کہ یوریا کی یہ قلت مصنوعی ہے۔ صورتحال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ کسان کھاد کے ٹرک لوٹنے پر تیار ہوگئے ہیں۔
ضلع شہداد کوٹ میں کسانوں نے پیپلزپارٹی رکن سندھ اسمبلی نوازنادر مگسی کے لیے یوریا لانے والے ٹرک کو روک لیا۔ اس کارروائی میں شامل ایک کسان کا کہنا تھا کہ یہ سب حکومت کی مس مینجمنٹ کا نتیجہ ہے۔ ہم کئی مہینوں سے کھاد کے لیے ترس رہے ہیں جب کہ ان بااثر جاگیرداروں کو پولیس کے پروٹوکول کے ساتھ یوریا فراہم کی جارہی ہے۔
سندھ ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے چیئر پرسن کے ایڈوکیٹ علی پلھ کے مطابق پاکستان میں تین کمپنیاں کھاد تیار کرتی ہیں۔ ان کی مجموعی پیداوار 60لاکھ ٹن کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ اس سال کارٹلز نے بڑی مقدار میں کھاد ذخیرہ کرکے ملک سے باہر اسمگل کردی۔
علی پلھ کے مطابق انھوں نے ہائیکورٹ میں کھاد کی مصنوعی قلت کے خلاف پٹیشن فائل کی ہے۔ ان کے خیال میں وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں نے اس معاملے سے نمٹنے میں نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے بیشتر اضلاع میں صوبائی حکمراں جماعت کے سے تعلق رکھنے والے کاشتکاروں کو یوریا فراہم کیا جارہا ہے جب کہ عام کاشت کاروں کو بلیک مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔