- 100کے نوٹ پر موجود دو غلطیاں دور کرنےکی ہدایت
- لیجنڈری کرکٹر ظہیر عباس کو طبیعت بہتر ہونے پر وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا گیا
- عمران خان نے بغیر اجازت ریلی نکالی، مقدمہ درج ہوگا، وزیرداخلہ
- چھوٹے بچے کی جادوگری نے انٹرنیٹ صارفین کو حیران کردیا
- کراچی میں ڈپارٹمنٹل اسٹور آتشزدگی؛ کثیر المنزلہ عمارت قابلِ رہائش قرار
- شعیب اختر سعودی عرب کے سرکاری مہمان بن کر حج ادائیگی کیلئے روانہ
- دوحہ مذاکرات؛ امریکا اور طالبان کا بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق
- تاجروں کا عید تک کاروباری اوقات میں پابندی ختم کرنے کا مطالبہ
- کراچی؛ وائے فائی ڈیوائس کا توہین آمیز نام رکھنے والے ملزم کا جسمانی ریمانڈ
- منکی پاکس کے بڑھتے کیسسز، ڈبلیو ایچ او نے وارننگ جاری کردی
- سرکاری عمارتوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا فیصلہ
- گاڑی میں کُشتی لڑنے کا انوکھا کھیل تیزی سے مقبول
- پریڈ گراؤنڈ جلسہ؛ پستول لے کر پنڈال میں داخل ہونے والا شخص گرفتار
- اربوں نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاؤں کی تصاویر عکس بند
- دل کی صحت کے لیے اچھی نیند مفید قرار
- وزیراعظم کی اسپتال میں مولانا فضل الرحمان کی عیادت، نیک خواہشات کا اظہار
- بھارتی عدالت نے مسلم صحافی کو 14 روزہ ریمانڈ پر جیل بھیج دیا
- فضل الرحمان کے قریبی ساتھی موسیٰ خان زائد اثاثہ جات کیس میں بری
- امیرِ طالبان پہلی بار عوامی سطح پر منظرعام پر آگئے
- سونے کے نرخ میں اضافہ
یوریا کھاد کی قلت کے خلاف کسانوں کا احتجاج

بااثر جاگیرداروں کو یوریا فراہم کیاجارہا ہے،عام کسان بلیک مارکیٹ کے رحم و کرم پر، علی پلھ۔ فوٹو : فائل
کراچی: سندھ کے مختلف اضلاع میں یوریا کھاد کی قلت کے خلاف کسان سراپا احتجاج بن گئے۔
گزشتہ روز کسانوں نے لاڑکانہ پریس کلب کے سامنے یوریا کی قلت کیخلاف احتاج کیا۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ 1765روپے والی یوریا کھاد کی بوری 3000 روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔
کسانوں کا کہنا تھا کہ مجبوراً وہ اس قیمت پر لینے کو تیار ہیں مگر اب یوریا مارکیٹ ہی سے غائب کردی گئی ہے۔ کسانوں کا دعویٰ ہے کہ یوریا کی یہ قلت مصنوعی ہے۔ صورتحال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ کسان کھاد کے ٹرک لوٹنے پر تیار ہوگئے ہیں۔
ضلع شہداد کوٹ میں کسانوں نے پیپلزپارٹی رکن سندھ اسمبلی نوازنادر مگسی کے لیے یوریا لانے والے ٹرک کو روک لیا۔ اس کارروائی میں شامل ایک کسان کا کہنا تھا کہ یہ سب حکومت کی مس مینجمنٹ کا نتیجہ ہے۔ ہم کئی مہینوں سے کھاد کے لیے ترس رہے ہیں جب کہ ان بااثر جاگیرداروں کو پولیس کے پروٹوکول کے ساتھ یوریا فراہم کی جارہی ہے۔
سندھ ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے چیئر پرسن کے ایڈوکیٹ علی پلھ کے مطابق پاکستان میں تین کمپنیاں کھاد تیار کرتی ہیں۔ ان کی مجموعی پیداوار 60لاکھ ٹن کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ اس سال کارٹلز نے بڑی مقدار میں کھاد ذخیرہ کرکے ملک سے باہر اسمگل کردی۔
علی پلھ کے مطابق انھوں نے ہائیکورٹ میں کھاد کی مصنوعی قلت کے خلاف پٹیشن فائل کی ہے۔ ان کے خیال میں وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں نے اس معاملے سے نمٹنے میں نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے بیشتر اضلاع میں صوبائی حکمراں جماعت کے سے تعلق رکھنے والے کاشتکاروں کو یوریا فراہم کیا جارہا ہے جب کہ عام کاشت کاروں کو بلیک مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔