کوئی چیز مفت نہیں ملتی

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 23 جنوری 2022
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

’’ میں نے تکلیفیں اٹھائیں میں نے سیکھا اور میں تبدیل ہوگیا ‘‘ یہ اک آفاقی سچائی ہے اور اک مسلمہ اصول ہے جو صدیوں سے چلا آرہا ہے اور وہی نجات کا بھی راستہ ہے۔ مہاتما بدھ اک دیوتا کی مانند بڑی شان و شوکت سے تین محلوں میں پلا بڑھا۔ اس کے باپ سدھورن نے دنیا کا کوئی غم کوئی تکلیف کسی تشنگی کو اس کے پاس پھٹکنے تک نہ دیا ، چالیس ہزار سے زائد رقاصائیں اپنے مسحورکن رقص سے بدھ کا دل بہلاتیں جب وہ شادی کی عمرکو آن پہنچا تو 500 حسین وجمیل دوشیزائوں کو اس کی خدمت میں پیش کیا گیا تاکہ وہ ان میں سے اپنے لیے شریک حیات کا انتخاب کرسکے۔ اس نے ان میں سے بسو دھرا کا انتخاب کیا۔ شادی کے بعد بیٹے راہول کی ولادت ہوئی۔ ایک روز بدھ چہل قدمی کی غرض سے اپنے محل کے باہر گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ اسی دوران اس نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کچھ دن بعد ایسی ہی معمول کی چہل قدمی کے دوران ایک بیمار آدمی کو اور پھرکچھ دن بعد ایک چتا کو دیکھا۔ بدھ نے ان واقعوں کو یوں بیان کیا ’’ او بھکشو ! میں جو شاہانہ جاہ و جلال ، رفعت و عزت کا مالک تھا یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو جاتا ہوں کہ ایک عام جاہل آدمی جس کا مقدر بڑھاپا ہے اور مجھے بھی تو بوڑھا ہونا ہے میں پھر ایک عام آدمی کو دیکھ کر مضطرب کیوں نہ ہوں۔ مجھے یہ موزوں دکھائی نہیں دیتا۔ جوانی کے فخر و ناز بڑھاپے میں بدل جاتے ہیں اس لیے اے بھکشو ! میں جنم کی فطرت کے بارے میں سوچتا ہوں ، مجھے بھی تو بوڑھا ہونا ہے، لہٰذا میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا مجھے پیدائش کی فطرت پر تفکرکرنا چاہیے۔ میں جنم کی بدنصیبی جاننے کے بعد نروان کے ابد ی امن کا خواہاں ہوں۔‘‘

بدھ کی آگہی کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے ، تمام آسائشوں کے باوجود حقیقی شانتی کا متلاشی بدھ ایک روز اپنی بیوی ، نومولود بچے اور باپ کے محل کو چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں اور صحرائوں میں نکل گیا اور پھر یہیں سے بدھ نے اپنے چھ سالہ کٹھن ترین تیاگ کا آغازکیا ، اس سے پہلے بھی تاریخ ہند میں بہت سے جوگی تیاگ لے چکے تھے۔ بدھ نے بیجوں اورگھاس پھونس پر اپنا پیٹ پالا ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اسے گوبر تک کھانا پڑا۔

آہستہ آہستہ اس نے اپنی خوراک کو محض چاول کے ایک دانے تک محدود کردیا ، اپنے آپ کو اذیت دینے کے لیے سر اور داڑھی کے بال نوچے گھنٹوں ساکت کھڑا رہا ،کانٹوں پر لیٹا رہا گرد و غبارکا ڈھیر جسم پر جمنے دیا ، یہاں تک کہ وہ ایک بوسیدہ اور شکستہ درخت دکھائی دینے لگا اکثر و بیشتر گلی سڑی لاشوں کے پاس اس کا مسکن ہوتا جہاں درندے اور پرندے ان کی چیڑ پھاڑ کرتے ، وہ اپنی زبان کو مسلسل دانتوں تلے دبائے رکھتا ، تاکہ اس کا ذہن مائوف رہے لیکن ایک دن بدھ نے سوچا کہ نفس کشی اس کی منزل نہیں اسے احساس ہوا کہ فاقہ کشی کی درشتی اسے آگہی تک نہیں لے کر آئی۔

اس نے تیاگ ترک کردیا اور اب ایک سایہ دار شجرکے نیچے بالکل ساکت بیٹھ گیا اور یہ ارادہ کیا کہ اس وقت تک نہیں اٹھے گا جب تک آگہی ، بصیرت اور مافوق انسانی روشنی اسے نہیں ملتی۔ سات برس کی بصیرت افروز اور کشف انگیز ریاضت اور انسانی تکلیف کا اصل کارن جان لینے کے بعد مہا تما بدھ بنارس آیا اور یہاں آکر سر ناتھ کے ایک باغیچے میں لوگوں کو نروان کی تبلیغ شروع کی۔ ’’ مہاتما بدھ نے تکلیفیں اٹھائیں اس نے سیکھا اور وہ تبدیل ہوگیا۔‘‘

آج سے 2285 برس پہلے پیدا ہونے والا شہنشاہ اشوک جو اشوک اعظم کہلایا۔ درحقیقت انسان اعظم ہے ، ایچ جی ویلز لکھتا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں فوج کشی کرنے والے بادشاہوں میں اشوک پہلی مثال ہے ، جس نے فتح حاصل کرنے کے بعد جنگ سے توبہ کرلی ، ہوا یوں تھا کہ بادشاہ اشوک سر پر تاج شاہی سجانے کے 8 برس بعد اپنے عظیم لشکرکے ساتھ پڑوس کی طاقتور اور دولت مند ریاست کالنگا (جنوبی اڑیسہ) پر حملہ آور ہوا اور اسے تہس نہس کردیا۔

طاقت کے نشے میں سرشار اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگاہوں کے سامنے دور، دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے ، بہت سے نیم مردہ تھے ،کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے پیاروں کو ڈھونڈ تی تھیں اور آہ و بکا کرتی تھیں۔

کالنگا کے میدان میں اس نے دیکھا کہ فتح کا چہرہ کتنا بھیانک ہے ، اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور اس کے ساتھ چلنے والا شاہی دستہ بھی گھوڑوں سے اترگیا۔ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا ’’ یہ میں نے کیا کردیا اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں یہ انصاف ہے یا ناانصافی یہ شجاعت ہے یا بزدلی کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے لاشوں کے یہ انبارکیا ہیں۔‘‘

کالنگا کی فتح کے بعد وہ بالکل بدل گیا پھر اشوک اعظم نے کبھی گوشت نہیں چکھا۔ اس کے سپاہیوں کی تلواروں کو زنگ لگتا رہا اور اس کی سلطنت میں چوکڑیاں بھرتے ہوئے جانوروں اور اڑتے ہو ئے پرندوں کو بھی جان کی امان ملی۔ وہ بدھ مت اختیار کرچکا تھا۔ ’’ بادشاہ اشوک نے تکلیفیں دیکھیں اس سے سیکھا اور وہ تبدیل ہوگیا۔‘‘

اس کے علاوہ سقراط ، برونو ، جان ہوس، تھامس مور،کارل ما رکس، سردار بھگت سنگھ ، جولیس فوچیک ،گیبریل پری ، طاہرہ قرۃ العین ، الندے مائو ، لینن سمیت ہزاروں ایسے شہید ان حق و سچ گذرے ہیں ، جنھوں نے تکلیفیں اٹھائیں ان سے سیکھا اور تبدیل ہوگئے اور اس کے بعد دنیا کو تبدیل کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا اور امر ہوگئے اور آج بھی زندہ ہیں اور ہمیں آسودگی، خوشحالی ، چین و سکون اور راحت کا راستہ دکھا رہے ہیں ، لیکن ہم نہ نجانے کیوں اندھے بنے ہوئے ہو۔

ہم حیرت انگیز قوم واقع ہوئے ہیں، مسلسل تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔ مسلسل ذلیل و خوار ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجود نہ تو ہم سیکھ رہے ہیں اور نہ ہی تبدیل ہورہے ہیں۔ فطرت نے انسان کو دو استاد مہیا کیے ہیں۔ ایک دکھ اور ایک راحت یہ ان کا کام ہے کہ ہمیں بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے یا کیا کرنا ہے۔ ہمارے استاد ہمیں مسلسل سبق دے رہے ہیں کہ قسمت اور نصیب بنے بنائے نہیں مل جاتے بلکہ انھیں بنانا پڑتا ہے اور وہ اس وقت بنتے ہیں جب ہم اپنی تکلیفوں سے سیکھتے ہیں ، تکلیفیں ہمارے لیے زندگی کے اندھیروں میں چراغ کا کام کرتی ہیں جو ہمیں نجات کے لیے راستہ دکھا تی ہیں۔

میرے لوگوں کیا تمہیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا ہے ، کیا سینوں میں گونجتی چیخوں سے تمہارے دل نہیں پھٹتے کیا تم اپنے پیاروں کے گریہ اور آہ و بکا سن کر زار زار روتے نہیں ہو۔ ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی ہے۔ اپنے لیے نہ سہی اپنے ماں باپ ، بچوں ، بیوی ، بہن ، بھائی کی خوشیوں اور آسودگی کی خاطر خدارا بزدلی اور کم ہمتی کو ایک طرف پھینک دو جابروں ، غاصبوں کو ایک دفعہ للکارکر تو دیکھو پھر تم دیکھو گے کہ وہ کس طرح تم سے اپنی جانوں کی بھیک مانگتے ہیں۔ یہ زندگی تم کو صرف ایک دفعہ جینے کے لیے ملی ہے ، خدارا اپنی تکلیفوں سے سیکھو اور تبدیل ہوجائو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔