شامی افراد نے سردی سے بچنے کےلیے میزائلوں کو ہیٹر میں بدل دیا

ویب ڈیسک  پير 24 جنوری 2022
اس تصویر میں صوبہ ادلب میں ایک شامی شخص اپنے بچے کے ساتھ میزائل کو ہیٹر میں بدل کے اس کے سامنے بیٹھا ہے۔ فوٹو: سائس فار ڈویلمپنٹ نیٹ ورک

اس تصویر میں صوبہ ادلب میں ایک شامی شخص اپنے بچے کے ساتھ میزائل کو ہیٹر میں بدل کے اس کے سامنے بیٹھا ہے۔ فوٹو: سائس فار ڈویلمپنٹ نیٹ ورک

بشام: جنگ سے تباہ حال شامیوں نے خون جمادینے والی سردی سے بچنے کیلیے میزائلوں کے خول کو ہیٹر میں تبدیل کردیا ہے۔

صوبہ ادلب میں جسر االشگر نامی شخص نے اپنے گھر میں میزائل ری سائیکل کرکے اسے ہیٹر میں تبدیل کردیا ہے کیونکہ وہ ہیٹرخریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ یہ میزائل اسے گھر کے پاس ملا تھا جسے ایک لوہار سے تبدیل کروایا گیا ہے۔

مسلسل جنگ، غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے ہیٹر اور ایندھن عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکے ہیں۔ تاہم مقامی لوہار 28 سے 32 سینٹی میٹر گھیر کے راکٹ اور میزائلوں کو احتیاط سے خالی کرکے انہیں ہیٹر میں بدل رہے ہیں۔ ان کا بارود مقامی کان کنوں کو پتھر توڑنے اور سرنگ بنانے کے لیے فروخت کردیا جاتا ہے۔ لیکن یہ پورا کام کسی نگرانی کے بغیر جاری ہے اور کسی بڑے حادثے کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بچے اور بڑے ایسے راکٹوں اور میزائلوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو پھٹنے سے رہ گئے ہوں۔ انہیں کارخانوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ پہلے میزائل کا اوپری حصہ کاٹا جاتا ہے تاکہ اس میں سے مضر بخارات باہر نکل جائیں۔ اس کے بعد بہت احتیاط سے اس کا بارود الگ کرلیا جاتا ہے جسے کان کنی کرنے والوں کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد میزائل کو ہیٹر کی شکل دی جاتی ہے۔

اس طرح بہت کم خرچ ہیٹر بنائے جارہے ہیں جس کی لاگت 15 ڈالر ہے اور بازار میں عام ہیٹر کی قیمت 100 ڈالر کے قریب ہے۔ اب سیلنڈر نما ہیٹر میں لکڑی، برادہ، کاغذ اور نائیلون وغیرہ بھر کر جلایا جاتا ہے۔ تاہم شامی پائرین کا تیل بھی جلارہے ہیں جو آسانی سے مل جاتا ہے۔

اسی طرح پناہ گزین اپنے کیمپوں کے ہیٹر میں کوئلہ جلانے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب ماہرین نے اس سارے عمل کو بے حد خطرناک قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق میزائل میں بارود کے ذرات بھی بہت نقصاندہ ہوسکتےہیں۔

شامی صوبے ادلیب سے سونیا العلی کی رپورٹ ، بشکریہ سائنس فار ڈویلمپنٹ نیٹ ورک

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔