- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
شامی افراد نے سردی سے بچنے کےلیے میزائلوں کو ہیٹر میں بدل دیا
بشام: جنگ سے تباہ حال شامیوں نے خون جمادینے والی سردی سے بچنے کیلیے میزائلوں کے خول کو ہیٹر میں تبدیل کردیا ہے۔
صوبہ ادلب میں جسر االشگر نامی شخص نے اپنے گھر میں میزائل ری سائیکل کرکے اسے ہیٹر میں تبدیل کردیا ہے کیونکہ وہ ہیٹرخریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ یہ میزائل اسے گھر کے پاس ملا تھا جسے ایک لوہار سے تبدیل کروایا گیا ہے۔
مسلسل جنگ، غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے ہیٹر اور ایندھن عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکے ہیں۔ تاہم مقامی لوہار 28 سے 32 سینٹی میٹر گھیر کے راکٹ اور میزائلوں کو احتیاط سے خالی کرکے انہیں ہیٹر میں بدل رہے ہیں۔ ان کا بارود مقامی کان کنوں کو پتھر توڑنے اور سرنگ بنانے کے لیے فروخت کردیا جاتا ہے۔ لیکن یہ پورا کام کسی نگرانی کے بغیر جاری ہے اور کسی بڑے حادثے کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بچے اور بڑے ایسے راکٹوں اور میزائلوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو پھٹنے سے رہ گئے ہوں۔ انہیں کارخانوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ پہلے میزائل کا اوپری حصہ کاٹا جاتا ہے تاکہ اس میں سے مضر بخارات باہر نکل جائیں۔ اس کے بعد بہت احتیاط سے اس کا بارود الگ کرلیا جاتا ہے جسے کان کنی کرنے والوں کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد میزائل کو ہیٹر کی شکل دی جاتی ہے۔
اس طرح بہت کم خرچ ہیٹر بنائے جارہے ہیں جس کی لاگت 15 ڈالر ہے اور بازار میں عام ہیٹر کی قیمت 100 ڈالر کے قریب ہے۔ اب سیلنڈر نما ہیٹر میں لکڑی، برادہ، کاغذ اور نائیلون وغیرہ بھر کر جلایا جاتا ہے۔ تاہم شامی پائرین کا تیل بھی جلارہے ہیں جو آسانی سے مل جاتا ہے۔
اسی طرح پناہ گزین اپنے کیمپوں کے ہیٹر میں کوئلہ جلانے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب ماہرین نے اس سارے عمل کو بے حد خطرناک قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق میزائل میں بارود کے ذرات بھی بہت نقصاندہ ہوسکتےہیں۔
شامی صوبے ادلیب سے سونیا العلی کی رپورٹ ، بشکریہ سائنس فار ڈویلمپنٹ نیٹ ورک
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔