کیا موجودہ ملکی مسائل کا حل صدارتی نظام میں ہے؟

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 24 جنوری 2022
سیاسی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

سیاسی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

ملک میں اس وقت صدارتی نظام پر کافی بحث ہورہی ہے جس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا، ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ
(سیاسی تجزیہ نگار)

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں صرف ایک نظام ایسا تھا جو صحیح معنوں میں صدارتی نظام تھا۔ 1962ء کے جنرل(ر) ایوب خان کے آئین کو صدارتی آئین کہتے ہیں جو 1969ء تک ملک میں نافذ رہا۔ اس کے بعد ہمارے ہاں کچھ ایسے ادوار بھی رہے جن میں صدر تو طاقتور تھا مگر وہ نظام صدارتی نہیں تھا۔ 18 ویں ترمیم سے پہلے یا مارشل لاء کے ادوار میں صدر یا چیف ایگزیکٹیو کے پاس اختیارات تو ہوتے تھے مگر آئین پارلیمانی تھا اور اس میں ہی صدر کو اختیارات دیے گئے تھے۔

صدارتی نظام کی بات کریں تو جنرل (ر) ایوب خان کے دور میں گڈ گورننس اور معیشت سب سے بہتر رہی ۔ ان کی حکومت تسلسل سے جاری رہی اور لانگ ٹرم پالیسیوں سے انہوں نے ملک کو مضبوط اقتصادی بنیاد دی جسے پوری دنیا میں سراہا گیا۔ ہم نے اب تک 9 مرتبہ پانچ سالہ منصوبے بنائے ہیں جن میں سے صرف 1960ء سے 1965ء تک ، جنرل (ر) ایوب خان کا جو اقتصادی منصوبہ تھا وہ کامیاب رہا اور اس نے اپنے تمام اہداف حاصل کیے ،جنوبی کوریا اور آج کے ایشیئن ٹائیگرز نے بھی ہماری نقل کی اوریہ ماڈل اپنا کر کامیابی حاصل کی۔

یہ ماڈل پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ترقی کا ماڈل ہے۔ جنرل (ر) ایوب خان کے نظام کی دو خرابیاں تھی۔ پہلی یہ کہ ترقی صرف مغربی پاکستان میں تھی، مشرقی پاکستان کو نظر انداز کیا گیا۔ میرے نزدیک اس کی وجہ نظام نہیں تھا بلکہ ایک فرد تھا جس نے اقتصادی ترقی میں توازن قائم نہیں رکھا۔ دوسرا یہ کہ پالیسیوں سے عام آدمی اور خصوصاََ بنگالیوں کو اس کا فائدہ نہیں پہنچ سکا مگر ملک کی معیشت بہت مضبوط تھی اور گورننس بہتر تھی۔

ملکی تاریخ میں ایک ہی دور رہا ہے جس میں اقتصادی ترقی بہت تھی اور ناقدین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم دوبارہ صدارتی نظام کی جانب اس لیے نہیں آئے کہ پاکستان دولخت ہوا۔ پھر ہم نے مختلف قومیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پارلیمانی نظام لانے کا تجربہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کا آئین دیا جو اب تک چل رہا ہے۔اس آئین میں پارلیمانی نظام ہے مگر 1973ء سے 2022ء تک ایک بھی حکومت ایسی نہیں آئی جس کے دور میں صحیح معنوں میں اقتصادی ترقی ہوئی ہو بلکہ معاشی و سیاسی عدم استحکام رہا، حکومتیں مدت سے پہلے ختم ہوتی رہی، سیاسی جماعتوں نے وہ کلچر متعارف کرایا جس نے ملک کی اقتصادیات کو متاثر کیا اور وہ منفی رویے پیدا کیے جس سے گڈ گورننس کا تصور ختم ہوا۔ عام آدمی کیلئے مسائل پیدا ہوئے۔ میرٹ کو نظر انداز کیا گیا ۔

ملک میں ابتری پیدا ہوئی اور یہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے لے کر آج تک جاری ہے۔ ادارے قومیائے گئے جس سے اقتصادی طور پر ملک کو بہت نقصان پہنچا۔ اس کے مقابلے میں 1962ء کے آئین کے تحت قائم کیے گئے صدارتی نظام نے اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ملک کو اقتصادی بنیاد فراہم کی۔ اس صدارتی نظام میں بہتری کی گنجائش موجود تھی۔ صدارتی نظام کا بہترین ماڈل امریکا میں ہے جہاں صدر بااختیار ہے مگر چیک اینڈ بیلنس کا مکمل نظام موجود ہے۔ وہاں جب تک سینیٹ منظور نہ کرے، صدر کی اعلیٰ ترین تقرریاں بھی نہیں ہوتی۔

اسی طرح صدر کے اہم فیصلوں میں کانگریس کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ کانگریس، صدر کا مواخذہ بھی کر سکتی ہے۔ صدر پر کانگریس اور سپریم کورٹ کا چیک ہے۔ امریکی نظام نے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ، کسی کو بھی ڈکٹیٹر بننے نہیں دیا بلکہ وہاں توازن قائم کیا گیا ہے۔

ہمارے ہاں پارلیمانی نظام کو ہی حرف آخر قرار دیا جاتا ہے حالانکہ پارلیمانی نظام سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 1962 ء کے آئین پر بہت تنقید کی جاتی ہے مگر عام آدمی کی نظر سے دیکھیں تو اس آئین نے عام آدمی کو ریلیف دیا اور اس کی زندگی بہتر کی۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمانی نظام سے امیر، غریب کا فرق ختم ہوگیا؟ کیا ملکی معیشت بہتر ہوئی؟ کیا سیاسی طور پر پاکستان مضبوط ہوا؟ہر گز نہیں بلکہ ہر طرف ابتری نظر آتی ہے جو ابھی تک جاری ہے۔ ہمیں اگر صدراتی نظام کی طرف جانا ہے تو 73ء کے آئین کی جگہ نیا آئین تشکیل دینا ہوگا اورایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت پڑے گی۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے اختیارات اپنے پاس رکھے اور وہ پارلیمانی سے صدراتی نظام کی جانب آئے۔ اسی طرح سنگاپور، کوریا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ مضبوط صدارتی نظام والے ملک ہیں۔ اگرچہ وہاں قومیت اور لسانیت کے اس طرح مسائل نہیں ہیں جس طرح ہمارے ہاں ہیں مگرہم نے دیکھنا ہے کہ موجودہ حالات میں ملک کو کس طرح مسائل سے نکالنا ہے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک آئینی اصلاحات نہیں کریں گے تب تک بہتری نہیں آئے گی۔ پارلیمانی نظام میں ہمارے ہاں دو جماعتیں ہی بار بار آتی رہی، اب تیسری جماعت آئی جو ڈیلور نہیں کر سکی۔ اب کیا مستقبل ہے؟ صدارتی نظام میں ایک شخص پر منحصر ہوتا ہے جو اپنے ویژن اور محنت سے ملک کو آگے لے کر جاتا ہے۔ اگر صدر بہترین شخص ہو، ملکی مفاد میں فیصلے کرے، میرٹ کو اولین ترجیح دے، اپنی ذات سے بالاتر ہوکر ملک کیلئے کام کرے اور ملک و قوم سے محبت کرنے والا ہو تو اس صورت میں بہتری آسکتی ہے۔

اگر ہمیں ترکی، سنگاپور جیسا لیڈر پارلیمانی نظام میں مل جاتا تو ہم بہت ترقی کرتے مگر اب کرائسس بہت بڑھ چکا ہے۔ یہاں قیادت کا فقدان ہے، ہمارے ہاں بصیرت والا لیڈر پیدا نہیں ہوسکا جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ جو قائد اعظمؒ کی طرح کا لیڈر ہو اور اس کی تمام تر توانائیاں اور مفاد ملک کیلئے ہو۔ جب لیڈر شپ کا کرائسس ہو تو نظام چاہے کوئی بھی ہو فائدہ نہیں ہوتا۔ ہم نے دیکھا کہ ماضی میں مضبوط صدر بھی آئے مگر انہوں نے اپنی ذات اور اپنے لوگوں کو فائدہ دینے کیلئے کام کیا۔

ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کیلئے ایک مضبوط ایگزیکٹیو کی ضرورت ہوتی ہے جس کے پاس اختیارات ہوں اور وہ بلیک میل نہ ہوسکے۔ وہ بڑے فیصلوں اور اقدامات سے ملک کو آگے لے کر جاتا ہے۔ہمیں بااختیار صدر کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے انتخابات بھی براہ راست کیے جائیں اور سینٹرز عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر آئیں۔ سینیٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو صوبوںکی برابری کی بنیاد پر بنتا ہے۔ اس سے ان کا احساس محرومی ختم ہوتا ہے۔ صدراتی نظام میں صدر کے ساتھ ساتھ سینیٹ کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔

عارضی طور پر یہ طے کر لیں کہ ہم ایک خاص مدت کیلئے ملک میں نیا تجربہ کریں گے۔اس کیلئے نیا آئین تشکیل دینا مشکل ہوگا، فی الحال موجودہ آئین میں ہی ترامیم کی جاسکتی ہیں۔ اگر ہم توازن اور احتساب کے ساتھ صدارتی نظام لانے میں کامیاب ہوئے تو مسائل میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ ایسا پارلیمانی نظام بنائیں جس میں صدر کے پاس اختیارات زیادہ ہوں، اس پر سینیٹ کا چیک ہو، سینیٹ کا الیکشن براہ راست ہو، اس میں ٹیکنو کریٹس کو نمائندگی دی جائے ۔ اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو مخلوط حکومتیں بنتی رہیں گے اور ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام جاری رہے گا۔

ڈاکٹرامجد مگسی

(سیاسی تجزیہ نگار)

پاکستان پارلیمانی نظام کے تحت وجود میں آیا اور یہاں ابتدائی نظام حکومت پارلیمانی تھا۔ اگرچہ اس میں مسائل آئے مگر اس کی بھی بہت ساری وجوہات ہیں۔ اس میں جہاں ملک کی سیاسی قیادت ذمہ دار تھی ،وہیں سول، ملٹری بیوروکریسی کا بھی بڑا کردار تھا جو 1958ء کے مارشل لاء کے بعد سامنے آیا۔ جنرل (ر) ایوب خان کے دور میں پہلی مرتبہ پاکستان میں صدارتی نظام کا تجربہ کیا گیا جس کی مدت 10 برس تھی اور یہ بلا شرکت غیر تھا ۔ اس وقت ون یونٹ بنائے گئے، صوبے ختم کیے گئے مگر اس کے نتائج اچھے نہیں رہے۔

اس دس سالہ صدارتی نظام کے بعد جنرل (ر) یحییٰ خان کو اقتدار دیا گیا، جو مارشل لاء کا ہی تسلسل تھا، اس کا نتیجہ ہمیں پاکستان کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کی صورت میں ملا۔ یہ پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہوا۔ جب دوبارہ سیاسی حکومت وجود میں آئی اور پارلیمانی نظام حکومت کے تحت جو آئین دیا وہ اس وقت کے تمام سیاسی عوامل کی مشترکہ کاوش تھی۔

آپس میں اتحاد و اتفاق سے بنایا گیا 1973 ء کا آئین جس میں پارلیمانی نظام حکومت کو قائم کرنے پر اتفاق پایا گیا اور اسی کے تحت ہی یہ وجود میں آیا۔ پہلا آئین 1956ء میں بنا جسے دو، ڈھائی برس میں ہی ختم کر دیا گیا۔ 1962ء کا آئین صدارتی نظام کیلئے بنایا گیا تھا، اسے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا اور اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں اور قیادت کا اس پر اتفاق تھاکہ پاکستان جیسا ملک جس میں مختلف ثقافت، زبانیں پائی جاتی ہیں، اسے چلانے کیلئے وفاقی پارلیمانی نظام ہی پائیدار اور کار آمد ہوسکتا ہے۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے 14 نکات ہوں یا ان کی جدوجہد، اس میں وفاقی پارلیمانی نظام اور صوبوں کو زیادہ اختیار دینے پر زور تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی انہوں نے یہاں پارلیمانی نظام ہی رائج کیا۔ بعد میں آنے والے عوامل کو جب دیکھتے ہیں تو زمینی حقائق، پاکستان کا سیاسی، جغرافائی ڈھانچے میں کارآمد نظام وفاقی پارلیمانی نظام ہی ہے۔ نظام کو چلانے والوں میں اچھائی، برائی تلاش کی جاسکتی ہے لیکن 1973ء کے متفقہ آئین میں پارلیمانی نظام دیا گیا۔ اس آئین کے چار برس بعد ملک میں 11 سال تک آمرانہ حکومت رہی، جس کے اثرات بہت عرصے تک پاکستان کے سیاسی نظام پر رہے۔

اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کا 10 سال کا نظام رہا،جسے مکمل صدراتی نظام تو نہیں کہہ سکتے مگر ایک ہائبرڈ سسٹم کا مظاہرہ تھا جس میں تمام تر اختیارات کا محور و مرکز جنرل (ر) پرویز مشرف تھے۔ اس دور میں بھی پاکستان کے سیاسی نظام میں بگاڑ پیدا ہوا، صوبے کے ساتھ تعلقات خاص کر بلوچستان کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ اس صدارتی نظام میں صوبائی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا۔ اسی طرح موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھیں تو اس وقت بہت زیادہ پولرائزیشن ہے۔ سیاسی حکومت اپنی ساکھ اور اعتماد کھو چکی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خلیج بڑھ چکی ہے۔

مہنگائی اور انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ سیاسی وسیع البنیاد مکالمے کو فروغ دے سکے، جس کے تحت نظام (صدارتی یا پارلیمانی) جیسی بنیادی بحث کا آغاز کیا جاسکے۔ اس کیلئے آئین میں بہت بڑی تبدیلی کرنی پڑے گی، اسے ری شیڈول کرنا پڑے گا جو اس وقت ممکنات میں شامل نہیں ہے۔ اس قسم کی بحث کو چھیڑنا پاکستان کے سیاسی نظام اور عوام کیلئے مزید پریشانیوں کا باعث بنے گا۔ اس سے ملک کا اندرونی نظام متاثر ہوگا۔ نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی، مسائل کا تعلق ان سے نہیں، چلانے والوں سے ہے۔

دنیا میں دونوں طرح کے نظام ہی کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ہر ملک نے اپنے زمینی حقائق کے مطابق نظام حکومت کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے منتخب نمائندے فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کس طرح کا نظام ہونا چاہیے۔ موجودہ حالات میں صدارتی نظام کی بحث چھیڑ کراصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس وقت گورننس کو بہتر کرنا، مہنگائی پر قابو پانا اور اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانا ہے۔ اس کیلئے سیاسی جماعتوں کو آپس میں بیٹھ کر اتفاق رائے سے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ اس کی بنیادی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر وسیع البنیاد مکالمے کی فضا پیدا کرے تاکہ مشترکہ طور پر پاکستان کو مسائل سے باہر نکالا جاسکے۔

اگر صلاحیت ہو تو پارلیمانی نظام حکومت میں بھی اسی طرح سب کو ملا کر فیصلے کیے جا سکتے ہیں لیکن اگر صدراتی نظام کو شخصی آمریت کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں تو جنرل(ر) ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی شخصی آمریتوں میں پاکستان کو نقصان پہنچا۔ ملک کی اندرونی یکجہتی اور استحکام کو نقصان پہنچا۔ صدارتی نظام کسی بھی طور موجودہ حالات میں پاکستان کیلئے بہتر نہیں ہوگا، پاکستان کی بقاء، سیاسی مستقبل میں استحکام کی شرط وفاقی پارلیمانی نظام ہے جس میں صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے جائیں اور ان کی محرومیاں ختم کی جائیں، انہیں برابری کی سطح پر فیڈریشن میں اختیار دیا جائے۔

اس طرح سے بنیادی مسائل حل ہوسکتے ہیں اور ملک کو آگے لے جایا جاسکتا ہے۔ اس وقت صدارتی نظام کی طرف ’یو ٹرن‘ لینا درست نہیں،پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ہم ماضی میں یہ تجربہ کر چکے ہیں اور اس کے نتائج بھی بھگت چکتے ہیں۔ ہمیں اس بحث کے بجائے پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا،اگر ہم آج بھی پارلیمان کے تحت فیصلے کریں اور لوگوں کی اختلاف رائے کو سنیں، انہیں فیصلہ سازی میں مثبت طریقے سے شریک کریں تو اسی پارلیمانی نظام کے تحت ہی موجودہ مسائل کا حل موجود ہے۔

معیشت کے مسئلے پر تمام سیاسی قیادت بیٹھ کر فیصلے کر سکتی ہے۔ پارلیمان کو مرکز بنایا جائے، پارلیمانی پارٹیوں اور سٹینڈنگ کمیٹیوں کو فعال کیا جائے۔ ہمارے پارلیمانی نظام میں وہ خوبیاں موجود ہیں جنہیں برووے کار لاکر نہ صرف مسائل سے چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے بلکہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا مستقبل، مضبوط اور باعمل وفاقی پارلیمانی نظام میں ہے، اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین!

ڈاکٹر زمرد اعوان

(سیاسی تجزیہ نگار)

صدارتی نظام کی موجودہ بحث نئی نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدارتی نظام ملک کے لیے موجودہ پارلیمانی نظام سے زیادہ موضوع ہے۔ اس کا ایک پس منظر جنرل (ر) ایوب خان کے دور کا صدارتی نظام ہے، جو 1962ء کے آئین میں متعارف کروایا گیا۔ اگرچہ اس آمریت کے نظام نے قانون سازی اور انتظامیہ کے اختیارات فرد واحد کو منتقل کرتے ہوئے،فوج کی سول اداروں میں مداخلت بڑھائی، مگر اس دور حکومت کے مثبت پہلوؤں میں،اقتصادی ترقی، نئے اداروںکی تشکیل اور نجکاری کوترجیح کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کی بہتری بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ اس وقت آبادی بڑھنے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے ،خاندانی منصوبہ بندی کا مفصل نظام مرتب کیا گیا تھا۔ جو لوگ صدارتی نظام کی بات کرتے ہیں، دراصل ان کے ذہن میں جنرل (ر)ایوب خان کے دور میں ہونے والی ترقی ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک یہ کوئی منطقی دلیل نہیں ہے۔

پاکستان ایک ایسی وفاقی ریاست ہے، جہاں تمام صوبے آبادی کے لحاظ سے برابر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پنجاب آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے،جس کی آبادی مجموعی آبادی کا 60 فیصد ہے۔ اگر صدارتی نظام کے تحت انتخابات ہوتے ہیں تو باقی صوبوں کے مقابلے میں پنجاب کا کردارزیادہ آبادی والا صوبہ ہونے کی وجہ سے غالب ہو گا جس سے صوبوں کے یکساں اختیارات کا تصور پاش پاش ہو جائے گا، جو دراصل وفاقی نظام کی بنیاد ہے۔ اس کی یہ وجہ بھی ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ابھی اتنی مضبوط نہیں ہیں۔

اگریہاں سیاسی جماعتیں مضبوط ہوتیں، تو بھی صدارتی نظام کی بحث کی جاسکتی تھی۔ سیاست آج بھی پاکستان میں نظریات کی بجائے شخصیات کے بل بوتے پر ہی چلتی ہے۔ اس لیے اس موقع پر اس بحث میں پڑنا کہ صدارتی نظام، پارلیمانی سے زیادہ بہترہے، مناسب نہیں ہے۔ قانونی طور پر بھی صدارتی نظام ممکن نہیں ہے کیونکہ پارلیمانی سے صدارتی نظام تبدیل کرنے کے لیے پہلے تو آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں مجموعی طور پر دو تہائی اکثریت چاہیے۔ اس وقت پاکستان میں کوئی جماعت ایسی نہیں ہے، جس کے پاس یہ اکثریت موجود ہو۔

اس لیے قانونی طور پر ممکن ہی نہیں کہ صدارتی نظام لایا جا سکے۔ دوسرا عملی طور پربھی یہ ممکن نہیں ہے جیساکہ پہلے میں نے بیان کیا ہے کہ پاکستان ایک وفاقی مملکت ہے، جس کے چار صوبے ہیں، جس میں کچھ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے اور کچھ بڑے ہیں۔

آبادی کے تناسب میں یہ فرق عملی طور پر صدارتی نظام کے تصورکو ناممکن بناتا ہے۔ اس کے علاوہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خانؒ سمیت دیگر بانیان نے ہمیشہ یہاں پارلیمانی حکومت کی بات کی۔ قومیں اپنے رہنماؤں کے نظریات کی نفی کرتی مناسب نہیں لگتی۔ اگر صدارتی نظام لایا جائے، تو یہ ان کے نظریات سے اختلاف ہو گا۔ کچھ لوگ امریکا کی مثال دیتے ہیں۔ اگرچہ امریکا میںمختلف تہذ یبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں، لیکن کسی ایک گروہ کی اکثریت کسی ایک صوبے میں نہیں ہے ، اسی لیے وہاں صدارتی نظام چل سکتا ہے۔

اسی طرح ایران اور ترکی کی مثال لیتے ہوئے ہم دیکھتے ہیںکہ وہاں ایک لسانی گروہ کی اکثریت ہے۔ جیساکہ ترکی میں ترک اور اگر وہاں کردوں کی بات کی بھی جائے تو وہ اتنی کم تعداد میں موجود ہیں کہ ان کی سیاسی نظام میں قابل ذکر نمائندگی نہیں بنتی۔ ایسے معا شرے جن میں ایک سے زیادہ لسانی گروہ اکثریت میں موجود ہوں ، اْس کے لیے پارلیمانی نظام مناسب ہے، جیساکہ ہمارے ہاں مو جود ہے۔

اس وقت صدارتی نظام کی بحث میں پڑنے کی بجائے ،ہمیں کچھ لسانی گروہوں کی شکایات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگرچہ اٹھاریوں ترمیم کے ذریعے یہ کام کافی حد تک ہو بھی چکا ہے۔ اس وقت بحث تو یہ ہونی چاہیے کہ کس طرح بلوچستان میں اور خاص طور پر خیبر پختونخواہ میں نئے الحاق شدہ قبائلی علاقوں میں ترقی لائی جائے کہ حقیقی معنوں میں وفاقی نظام کو مزید عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ میرے نزدیک جس طرح کے اندرونی مسائل ہمیں اس وقت درپیش ہیں، ان کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم پہلے سے موجود نظام اور اداروں کو مضبوط کریں ، نہ کہ نئی بحث میں پڑیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔