پاکستان میں ذہنی مریض 23 لاکھ سے متجاوز، نشئی 1 کروڑ ہوگئے

خالد رشید  پير 24 جنوری 2022
کورونا وبا پھیلنے کے بعد ڈیپریشن کے مریضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ فوٹو: فائل

کورونا وبا پھیلنے کے بعد ڈیپریشن کے مریضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ فوٹو: فائل

لاہور: مہنگائی، بے روزگاری اور مناسب وسائل نہ ہونے سے پاکستان میں ذہنی عارضوں میں مبتلا افراد کی تعداد23 لاکھ سے تجاوز کر چکی جب کہ اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستانی معاشرہ ابھی تک ذہنی عارضوں کو بیماری کے طور پر قبول کرنے کیلیے تیار نہیں جس کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس ٹربیون کو حاصل دستاویزات کے مطابق کورونا کے بعد ڈپریشن اور ذہنی مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

لاہور فاؤنٹین ہاؤس میں اس وقت 200 بیڈز کا ہسپتال موجود ہے جہاں 24گھنٹے مریضوں کی دیکھ بھال کی جارہی ہے ۔ فاروق آباد میں 150بیڈز اور سرگودھا میں 100بیڈز کا ہسپتال ہے۔فاؤنٹین ہاؤس کا سالانہ بجٹ30کروڑ روپے ہے جبکہ ان اداروں کو نہ تو حکومت کی طرف سے کوئی گرانٹ مل رہی اورنہ ہی غیر ملکی ڈونرز کی طرف سے امداد ملتی ہے ، ان کا انحصار صرف پاکستانی ڈونرز اور ادارہ اخوت پر ہے۔

فاؤنٹین ہاؤس کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عمران مرتضی نے کہا لوگ آج بھی جن بھوت کا تصور لے کر دم کرانے میں مصروف ہیں جہاں پیر اور عامل نہ صرف مریضوں کو مارتے ہیں بلکہ عزتیں بھی لوٹتے ہیں،عالمی سطح پر 20ہزار مریضوں کیلیے ایک ماہر نفسیات ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں 20لاکھ کی آبادی کے لئے ایک ماہر نفسیات ہے، فاؤنٹین ہاؤس میں جو لوگ اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کرجاتے ہیں پھر دوبارہ ان سے ملنے نہیں آتے۔

اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہا ہم مریضوں کو اپنے بچوں کی طرح دیکھتے ہیں، ہماری کوشش ہوتی ہے ہم ایک ڈونر کو قائل کریں کہ وہ مریضوں کو اپنا دوست سمجھ کر اس کی مدد کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔