روپ بہروپ

نسیم انجم  اتوار 16 فروری 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

انسانوں نے بھی کیا روپ بہروپ دھارے ہیں ان کے اس عمل نے بے شمار لوگوں کو مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج جگہ جگہ اور قدم قدم پر جعلساز اور فقیر ملیں گے جو نت نئے حربے آزما کر لوگوں کو بے وقوف بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور بے چارے لوگ بھی کیا کریں کہ وہ اپنی فطرت سے اور یہ اپنی فطرت سے مجبور ہیں کہ نیکی کرنے والا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا اور لٹیرے اپنی ہر واردات کو کامیابی کے منظر نامے میں ڈھالنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اسی موقعے کی مناسبت سے ایک حکایت یاد آ گئی ہے۔ مولانا رومی کہتے ہیں کہ شہر بخارا کے امیر صدر جہاں اپنی سخاوت کی بنا پر دور دور تک شہرت رکھتے تھے، کوئی فقیر ان کے در دولت سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا۔

صدر جہاں نے حاجت مندوں کے لیے دن مقرر کر دیے تھے اصول و ضوابط کا یہ عالم تھا کہ اپنی باری سے پہلے مجال ہے کہ کوئی شخص خیرات وصول کر لے، ایک دن بیواؤں کے لیے، دوسرا مصیبت کے ماروں کے لیے، تیسرا فقرا، چوتھا ملاؤں کا، پانچواں روز مساکین، چھٹا یتیم بچوں اور ساتواں دن قیدیوں کے لیے مختص تھا اور آٹھویں، نویں دن کی کیا بات تھی کہ ان دونوں دنوں میں وہ لوگ شامل تھے جو زبان سے اپنا حال دل بیان نہیں کریں گے، بلکہ خاموشی اختیار کریں گے یہ لوگ اپنی باری والے روز صدر جہاں کی گزرگاہ کے دونوں جانب قطاریں باندھے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور وہ سخی داتا انھیں اشرفیاں دیتا ہوا گزر جاتا اور اگر ان لوگوں میں سے کوئی سوال کرتا تو صدر جہاں اسے کچھ نہ دیتا۔

ایک دن ایک سائل ایسی ہی غلطی کر بیٹھا لوگوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا اور صدائیں لگاتا رہا، وہی ہوا جس کا ڈر تھا صدر جہاں نے اس کے قریب آ کر کہا کہ تو بڑا ہی بے شرم ہے، وہ آدمی صاحب نظر تھا  بولا ’’تو اس جہاں میں بھی خوب موج اڑا رہا ہے اور دوسرے جہاں میں بھی کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے‘‘۔ سوالی کے جواب نے صدر جہاں کو بے حد متاثر کیا اور اشرفیاں تقسیم کرنا روک کر غلاموں کے لیے حکم صادر کیا کہ جس قدر یہ آدمی مال و دولت طلب کرے اسے دے دو۔ اسی طرح جب ملاؤں کی باری آئی تو ان میں سے ایک نے اپنی باری کا انتظار کرنے سے پہلے ہی واویلا مچانا شروع کر دیا۔ صدر جہاں نے خلاف ورزی کی سزا دیتے ہوئے اسے کچھ نہ دیا۔ اس نے محرومی کے بعد اپنی درد بھری کہانیاں بنانا شروع کر دیں، غربت اور افلاس کا رونا رویا لیکن امیر نے پھر بھی اسے کچھ نہ دیا ۔ دوسرے دن وہی ملا ہاتھ پیروں پر پٹیاں لپیٹ کر معذوروں کی صف میں جا بیٹھا تا کہ اس پر زیادہ ترس کھایا جائے، لیکن صدر جہاں نے اسے پہچان لیا اور اس دن بھی اسے کچھ نہ ملا، تیسرے دن اس شخص نے اپنے چہرے پر کالا کپڑا لپیٹ لیا اور اندھا بن کر اندھوں کی قطار میں لگ گیا، صدر جہاں کی اس پر نگاہ پڑی تو انھیں پہچاننے میں لمحہ بھی نہیں لگا کہ یہ وہی آدمی ہے جو مسلسل سوانگ بھر رہا ہے۔

وہ ملا بھی ہارنے والوں میں سے نہیں تھا لہٰذا اگلے دن وہ اپنے جسم اور سر پر چادر ڈال کر بیواؤں کی صف میں جا بیٹھا اور جھولی پھیلالی، ادھر بھی ملا کی چال کامیاب نہ ہوئی اور شناخت کر لیا گیا اس بار بھی ملا کو جب ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو غصے سے بے قابو ہو گیا اور اسی حالت میں کفن چور کے پاس پہنچا اور اس سے سودا طے کر لیا کہ مجھے کفن پہنا کر میرا جنازہ سر راہ رکھ دینا اور تم خاموشی اختیار کر لینا جب صدر جہاں کا گزر ہو گا تو وہ تدفین کے لیے ضرور رقم دے گا اس رقم کو ہم دونوں آدھا آدھا بانٹ لیں گے۔ کفن چور کو یہ بات پسند آئی اور ملا کی تجویز کو عملی جامہ پہنا دیا گیا، جس وقت صدر جہاں کی سواری نکلی تو ان کی نگاہ جب کفن میں لپٹی لاش پر پڑی تو صدر جہاں نے اشرفیوں کی ایک تھیلی اس کفنائی ہوئی میت پر پھینک دی۔ ملا نے فوراً کفن سے ہاتھ نکال کر اشرفیوں کی تھیلی اٹھالی اور پھر اٹھ کر بولا ’’دیکھا! آخر ہم نے سرکار سے کچھ لے کر ہی چھوڑا‘‘۔ صدر جہاں نے جواب دیا ’’ارے او احمق! جب تک تو مرا نہیں، ہماری سرکار سے کچھ نہ حاصل کر پایا‘‘۔ آج بھی نوسر باز قدم قدم پر موجود ہیں اور اپنے کرتب دکھا کر درد انگیز داستان سنا کر لوگوں سے رقم اینٹھ لینے میں بڑی مہارت حاصل کر چکے ہیں۔

کہیں چلے جائیں فقیر اور ان کے خاندان فٹ پاتھ پر دکانوں، ریستورانوں کے سامنے بھاگتے دوڑتے نظر آئیں گے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے پورا دن اور نصف شب تک سب کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں گے جہاں سگنل پر گاڑیاں رکیں یہ دوڑے بھاگے آ گئے، توجہ نہ دینے کے باوجود یہ اپنی ڈھٹائی کے سہارے توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اکثر لوگ رحم کھا کر بھیک دے دیتے ہیں اور کچھ ڈانٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، بیشتر بھکاری اندھے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں ٹانگیں موڑ کر لنگڑا بن کر دکھاتے ہیں اور چہروں پر ایسا میک اپ کرتے ہیں کہ دیکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ اس کا چہرہ جھلسا ہوا اور بے حد زخمی ہے۔ ہلدی، چونا، کتھا سب ہی کچھ لگا کر راستوں اور سڑکوں پر نمودار ہوتے ہیں۔ گداگری کا پیشہ بھی بے حد قدیم ہو چکا ہے۔

اگر حکومت چاہے تو پیشہ ور فقیروں پر پابندی لگا دے انھیں کوئی کام فراہم کیا جائے نہیں تو فلاحی سینٹر میں پہنچانے کے احکامات صادر کر دے، وہاں پر یہ محنت مزدوری بھی کریں گے اس طرح معاشرے پر جو بدنما داغ لگا ہے وہ بھی تقریباً صاف ہو جائے گا، فلاحی سینٹر میں صحت مند مرد و خواتین اپنی بساط کے اعتبار سے کچھ نہ کچھ کام ضرور کرتے ہیں۔

لیکن آج کے بھکاریوں کا مسئلہ صرف پیٹ بھرنا نہیں ہے بلکہ دولت کمانا اور اس دولت کو بینکوں میں جمع کروانا ہے۔ گداگر بھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ دوسرے جرائم میں بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ اکثر گینگ وار میں شامل ہو جاتے ہیں، جرائم پیشہ افراد نے باعزت زندگی گزارنے اور رزق حلال کمانے والوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے، یہ فقیروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں انھیں بہروپ بھرنے کی بھی ضرورت کم ہی پیش آتی ہے یہ تو ڈنکے کی چوٹ پر اور اسلحے کے زور پر تاجروں کو عرصہ دراز سے لوٹ رہے ہیں، پہلے پرچیاں دیتے ہیں فون کرتے ہیں اگر رقم مل گئی تو دوبارہ مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کسی نے بھتے کی پرچی کی پرواہ نہ کی تو جان سے مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔  بے شمار تاجر ان شر پسندوں کے ہاتھوں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح زبردستی اور دھونس کے ذریعے بھیک مانگنے کا ہی طریقہ ہے اور یہ محض زبردستی ہی نہیں ہوتی بلکہ کشت و خون کا بہانہ بھی ان کی فقیری میں شامل ہے۔ اس طرح یہ قاتل بھی ہیں اور لٹیرے بھی۔ اگر اپنے اپنے صوبوں کے وزیر اعلیٰ گداگری اور دوسری برائیوں پر قابو پانا چاہیں تو کوئی ان کے احکامات کو رد نہیں کر سکتا ہے۔ خواہ وہ قانون نافذ کرنے والے ہوں یا خفیہ ادارے ہوں، وہ آسانی کے ساتھ معاشرے میں پھیلی ہوئی کرپشن کو روک سکتے ہیں بس خلوص نیت کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔