- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
فنگر پرنٹس اور اسمارٹ کارڈ کا دور گیا!
سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی روزافزوں ترقی تمام شعبہ ہائے زندگی میں تبدیلیوں کا سبب بن رہی ہے۔
نئی نئی ایجادات اور ٹیکنالوجیز منظرعام پر آتی رہتی ہیں جو پہلے سے موجود آلات و ٹیکنالوجی کی جگہ لے لیتی ہیں۔ تصویر کی طرح ٹیکنالوجی کے بھی دو رُخ ہوتے ہیں۔ منفی مقاصد کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس داں اور دیگر ماہرین محفوظ تر ٹیکنالوجی تیار کرنے کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔
انسانی شناخت کے لیے دنیا بھر میں کئی ٹیکنالوجیز استعمال ہورہی ہیں۔ ان میںسب سے عام انگلیوں کی پوروں کے ذریعے شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی ہے۔ کاروباری اداروں میں یہی ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے۔ سیکیورٹی کے نقطۂ نظر سے اس ٹیکنالوجی میں خامیاں موجود ہیں، اس لیے مزید مؤثر ٹیکنالوجیز پر تحقیق کی جارہی ہے۔ علم حیات پیمائی ( بایومیٹرکس) کے ماہرین کسی فرد کو اس کے جسم کی بُو کے ذریعے شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی ڈیولپ کرنے پر کام کررہے ہیں۔
اسپین کی میڈرڈ پولی ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں قائم ’’دی گروپ آف بایومیٹرکس، بایوسگنلز اینڈ سیکیورٹی‘‘ ( GB2S) سے وابستہ سائنس داں اور انجنیئروں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے نہ صرف شہریوں کی حفاظت کے نظام میں نمایاں بہتری آئے گی بلکہ اسے امراض کی تشخیص میں بھی استعمال کیا جاسکے گا۔
سائنس دانوں کے مطابق ہر فرد کے جسم کی بُو دوسرے فرد سے مختلف ہوتی ہے اور دن و رات کے بیشتر حصے میں اس کی شدت بھی برقرار رہتی ہے۔ GB2S کے ماہرین نے بُو شناخت کرنے والا سینسر تیار کیا ہے۔ یہ سینسر انسانی جسم کی بُو میں شامل طیران پذیر یا ہوا میں تحلیل ہوجانے والے عناصر کی شناخت کرسکتا ہے۔ تحقیقی ٹیم کے مطابق سینسرز کی بُوگیر صلاحیت کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور بہت جلد انھیں عام استعمال کے قابل بنالیا جائے گا۔ تاہم ملکی سطح پر اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ملک گیر پروجیکٹ شروع کرنے کی ضرورت ہوگی جس کے تحت ہر شہری کے جسم کی بُو اور اس سے متعلق معلومات کو ہم آہنگ اور محفوظ کرنا ہوگا۔
بُوگیر سینسرز سے لیس شناختی آلات ایئرپورٹ سیکیورٹی چیک پوسٹس، اور ملکی سرحدوں پر استعمال کیے جاسکیں گے۔ نیشنل رجسٹریشن ڈیٹابیس جیسے منصوبوں کے علاوہ اس ٹیکنالوجی سے کاروباری اور تجارتی ادارے بالخصوص حساس نوعیت رکھنے والے ادارے بھی فائدہ اٹھاسکیں گے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔