پاکستان کا ایک گمنام محسن (دوسری قسط)

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 26 جنوری 2022
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

یہ سن کر ڈاکٹر اقبالؒ صاحب نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ’’آپ صحیح بخاری کا انگریزی میں ترجمہ کیوں نہیں کرتے تاکہ یورپ اور امریکا کے باشندے بھی ہمارے نبی کریمﷺ کی آواز سن اور سمجھ سکیں‘‘۔ میں نے اُسی وقت ان کی یہ تجویز مان لی اور اس نئے پراجیکٹ پر کام شروع کردیا۔

محمد اسد صاحب لکھتے ہیں،’’مجھے فوراً اندازہ ہوگیا کہ یہ پراجیکٹ اتنا آسان نہیں ہے، اس کے لیے مالی وسائل درکار ہیں، جب کہ مجھے اخبار سے جتنا معاوضہ ملتا ہے، اس سے میں بمشکل اپنا اور بیوی اور بیٹے کے اخراجات پورے کرتا ہوں۔ کئی ملنے والوں سے مشورہ کیا تو ان سب نے ایک ہی نام لیا، نظام آف حیدرآباد، جو ہندوستان کے مسلمانوں میں امیر ترین شخص ہے ۔

اس موقعے پر میرے پرانے دوست مولانا عبدالقادر قصوری نے دہلی میں اپنے ساتھیوں سے کہہ کر میرے لیے ابتدائی فنڈز کا بندوبست کرادیا اور ہم نے پرنٹنگ مشین کے لیے برطانیہ آرڈر بھیج دیا‘‘۔

اب سوال یہ تھا کہ یہ منصوبہ مکمل کرنے کے لیے میں کہاں ڈیرہ جماؤں۔ بالآخر قرعہء فال کشمیر کے نام پر نکلا کیونکہ وسطی ہندوستان کے میدانی علاقوں کی گرمی میرے لیے شاید قابلِ برداشت نہ ہوتی، چنانچہ کچھ تعارفی خطوط لے کر میں اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ سرینگر روانہ ہوگیا ۔ عارضی طور پر میں نے سرینگر میں ایک بوٹ ہاؤس کرائے پر لے لی۔

چند روز بعد میں تعارفی خط لے کر وہاں کی سب سے معزز اور بااثرشخصیت میرواعظ محمد یوسف کے پاس گیا۔ وہ بھی فارسی روانی سے بول سکتے تھے، اس لیے ہم نے ساری گفتگو فارسی میں کی، انھوں نے ہمیں بڑا پرتکلف کھانا کھلایا اور اپنے گھر رہنے کی پیشکش کی۔

لیکن میرے کام کی نوعیت ایسی تھی کہ مجھے تخلیہ درکار تھا، چنانچہ میری خواہش پر انھوں نے ہمیں معقول کرائے پر ایک بہت اچھا مکان لے دیاجہاں میں اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ بڑی پرسکون زندگی گزارنے لگا۔ وہیں میں نے صحیح البخاری کے ترجمے کا کام بھی شروع کردیا۔ میں مجموعۂ احادیث پر جس قدر غورو فکر کرتا گیا، مجھ پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی چلی گئی کہ احادیث کی زبان اور قرآن کی زبان میں بہت نمایاں فرق ہے۔

احادیث کی زبان صحرائے نجد کی خالص عربی زبان ہے اور قرآن کی زبان کا جلال اور جمال ایسا بے مثال ہے جو علاقے، خطے اور وقت سے ماورا ہے۔  نظام آف حیدرآباد سے ملاقات کے بارے میں لکھتے ہیں،’’ سرینگر میں ہی ایک روز ایک دعوت میں حیدرآباد کے ایک نواب صاحب سے ملاقات ہوگئی، انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ نظام آف حیدرآباد سے ضرور ملیں، انھوں نے مجھے تعارفی چھٹی بھی دے دی اور اس کی ایڈوانس کاپی نظام صاحب کے دفتر بھی بھیج دی۔ چند روز بعد مجھے حیدرآباد سے ،ملاقات کی دعوت موصول ہو گئی۔

نظام آف حیدرآباد دنیا کے امیر ترین شخص تھے مگر ان کی کنجوسی کی بڑی داستانیں مشہور تھیں۔  میں حیدرآباد پہنچا تو ان کے اسٹاف نے مجھے ریلوے اسٹیشن پر ریسیو کیا ۔ دوسرے روز ملاقات طے پائی تھی۔ میں ان کی شاہی رہائش گاہ پرپہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان کا محل شاہانہ شان و شوکت سے عاری تھا، اسے ایک بنگلہ یا کوٹھی کہا جا سکتا ہے۔ نظام صاحب بڑے سنجیدہ اور خاموش طبیعت کے مالک تھے ، ان کا لباس فاخرانہ نہیں بلکہ کسی حد تک درویشانہ سا تھا۔ ایک ویٹر نے پیالوں میں چائے ڈالی اوردوسرے نے  بسکٹ آگے کر دیے۔

میں نے ایک بسکٹ اٹھالیا، کچھ دیر بعد اُس نے دوسری بار پلیٹ آگے کی تو میں نے معذرت کر لی مگر ویٹر وہیں کھڑا رہا، اس پر نظام صاحب نے اسے اردو میں ڈانٹتے ہوئے کہا جب مہمان نے بسکٹ نہیں لینے تو واپس لے جاؤ، کھڑے کیوں ہو۔‘‘ ان سے ملنے کے بعد میں حیدرآباد کے وزیراعظم سر اکبر حیدری سے ملا ، انھوں نے مجھے علیحدہ ملاقات میں بتایا کہ آپ کی مالی امداد کے لیے ڈاکٹر محمد اقبالؔ صاحب کا خط پہنچ چکا ہے لہٰذا آپ کا کام ہو جائے گا اور واقعی کام ہوگیا۔ نظام صاحب نے ہمارے پروجیکٹ کے لیے وافر رقم فراہم کر دی، جس سے ہم نے اعلیٰ معیار کا اپنا پریس لگالیا‘‘۔

’’سرینگر سے میں جب بھی لاہور آتا تو ڈاکٹر محمد اقبالؒ صاحب کے پاس ضرور حاضر ہوتا۔ وہ مجھے تجویز کردہ نئے وطن ’پاکستان‘ کی ضرورت اور افادیت کے بارے میں بتاتے رہتے اور ہم پاکستان کے عالمی کردار کے بارے میں نقشے بناتے رہتے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر نئے وطن پاکستان کے قیام کی ضرورت اور افادیت کے بارے میں انگریزی اور عربی میں کئی مضامین لکھے جو ہندوستانی اخبارات کے علاوہ مغربی پریس میں بھی چھپتے رہے۔

اس سلسلے میں میں نے پاکستان کے حق میں کئی شہروں میں جا کر تقاریر کیں‘‘۔ محمد اسد مزید لکھتے ہیں کہ ’’1935 میں میری ایک اور مہربان شخصیت سے ملاقات ہوئی جسے میں اپنے محسن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھوںگا، وہ ہیں چوہدری نیاز علی صاحب، وہ اریگیشن انجینئر تھے، پہلی جنگِ عظیم میں ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت نے انھیں ضلع فیروز پور کے قصبہ جمال پور میں بہت بڑی زرعی جائیداد دی تھی۔ چوہدری صاحب دینِ اسلام کے متوالے تھے اور اس کے لیے ہر وقت قربانی کے لیے تیار رہتے تھے۔

وہ جمال پور میں دارالاسلام کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے، اس سلسلے میں انھوں نے نوجوان مسلم اسکالر سید ابو الاعلیٰ مودودی کو حیدرآباد سے مستقل طور پر وہاں آنے کی دعوت دی تھی۔ مجھے بھی انھوں نے وہیں آکر اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا کام کرنے کی دعوت دی۔ وہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ سے بھی رہنمائی لیتے رہتے تھے۔ اِسی ضمن میں ڈاکٹر محمد اقبالؒ صاحب کے ہاں ایک میٹنگ بھی ہوئی جس میں سید ابوالاعلیٰ مودودی، میں (محمد اسد) اور چوہدری نیازعلی شریک ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب اسلامی قوانین کی تدوین میں دلچسپی رکھتے تھے‘‘۔

’’اُدھر کچھ عرصہ کے بعد سرینگر میں مہاراجہ کی حکومت نے مجھے سرینگر سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔  پولیس اور سی آئی ڈی آئے روز تنگ کرنے لگی تھی، لہٰذا سرینگر میں مزید قیام کرنا میرے لیے ممکن نہیں رہا تھا، چوہدری نیاز علی نے جمال پور رہنے کی پیشکش کی مگر وہاںکا گرم موسم مجھے راس نہیں آتا تھا ، اس لیے میں نے ایبٹ آباد شفٹ ہونے کا پروگرام بنالیا۔ اس دوران میں نے لاہور آکر عرفات پریس کے نام سے اپنا پریس بھی قائم کرلیاتھا۔‘‘

’’ 1938 کے اپریل میں، میں نے لاہور آکر دیکھا کہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ صاحب کی صحت بہت گر گئی ہے۔ ایک روز لاہور میں ہی میں اپنے نئے قائم کردہ  عرفات پریس کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور انتہائی گھبراہٹ میں بتایا کہ ڈاکٹر اقبالؒ صاحب وفات پاگئے ہیں ، یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری۔ مجھے امت مسلمہ کے لیے ہر طرف تاریکی نظر آنے لگی۔ میں فوراً ان کے گھر پہنچا، جہاں پہلے ہی ان کے دوست اور بہت سے چاہنے والے ان کی سادہ سی چارپائی کے گرد کھڑے تھے۔

میں نے ان کے چہرے پر نگاہ ڈالی تو مجھے ان کا چہرہ اس قدر پر سکون نظر آیا جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ مجھے لگا کہ وہ کسی وقت آنکھیں کھول کر کہیں گے ،’’میں نے اپنا مشن مکمل کر دیا ہے‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے لاکھوں مسلمانوں میں آزادی کی شمع روشن کی تھی، ڈاکٹر محمد اقبالؒ ہی سے متاثر ہو کر کیمبرج کے نوجوان طالبِعلم رحمت علی نے نئے ملک کا نام پاکستان تجویز کیا تھا۔ ڈاکٹر اقبالؒ بلاشبہ نئے ملک کے نظریاتی اور روحانی باپ کی حیثیت رکھتے تھے۔ دوپہر کو اس عظیم ہستی کا جنازہ اٹھا تو لگتا تھا لاہور کا ہر مرد جنازے میں شامل ہے۔

قریباً ایک لاکھ لوگ جنازے میں شریک تھے، جنازے کے جلوس کو بادشاہی مسجد پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ بوقت شام مسلم دنیا کے سب سے بڑے مفکر اور شاعر کو دنیا کی سب سے بڑی مسجدکے پہلو میں دفن کیا گیا‘‘۔

’’ڈاکٹر محمد اقبالؒ جیسی عظیم المرتبت اور بابرکت ہستی کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد میرے لیے ذاتی طور پر بھی مصائب اور آزمائشوں کا دور شروع ہوگیا۔ 1939 میں ہٹلر ایک طوفان کی طرح اُٹھا اور یورپی ممالک کوروندتاچلاگیا۔ نازی جرمنی نے آسٹریا پر قبضہ کیا تو مجھے اپنے والد اور بہن کی جانیں بچانے کی فکر لاحق ہوئی کیونکہ وہ آسٹریا میں مقیم تھے۔

میں نے فوری طور پرانھیں اپنے پاس لاہور بلانے کا فیصلہ کرلیا۔ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ سکندر حیات اور پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دین محمد نے مہربانی کر کے ہوم سیکریٹری اور برطانوی سفارت خانے کے نام خط لکھ دیے تاکہ انھیں فوری طور پر ہندوستان کے ویزے مل جائیں مگراس دوران میری بہن سے تعارفی خٖط گم ہوگیا اور پھر چند دنوں بعد جنگ تیز ہونے پر ویانا میں برطانوی سفارت خانہ بند ہوگیا اور میرے پیاروں کی جانیں بچانے کے امکانات معدوم ہوتے چلے گئے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔