مظلوموں کو انصاف نہیں ملے گا

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 27 جنوری 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کشمیر روڈ ،کراچی کی بارونق شاہراہ ہے۔ اس شاہراہ سے متصل کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس ہے اور اس کے ساتھ مسلم آباد ہے۔ مسلم آباد ہندوستان کے بٹوارہ سے پہلے مسلمان امراء کی خوبصورت سوسائٹی تھی۔ اسپورٹس کمپلیکس اور مسلم آباد کے درمیان سڑک پر متوسط طبقہ کے کچھ مکانات ہیں۔ ان مکانات میں سے ایک میں نوجوان شاہ رخ اپنے خاندان کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کررہا تھا۔

اس خاندان کا موٹر کا شوروم ہے ، شاہ رخ کی ابھی شادی ہوئے دو دن ہوئے تھے۔ اس کی والدہ اپنی بیٹی کے ساتھ شاپنگ پر گئی تھی ، جب وہ رکشہ میں گھر کے دروازہ پر پہنچی تو ایک مسلح موٹر سائیکل سوار نے پستول دکھا کر لوٹنے کی کوشش کی۔ اس دوران شاہ رخ چیخ و پکار سن کر دروازہ پر آگیا۔ شاہ رخ نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ ظالم شخص نے شاہ رخ پر فائرکھول دیا۔ قریب کے بنگلہ پر مسلح گارڈز بھی موجود تھے، شاہ رخ زمین پر گرگیا۔ کسی نے قاتل کو پکڑنے کی کوشش نہیں کی۔ شاہ رخ اسپتال جاتے ہوئے انتقال کرگیا۔

کراچی میں شاہ رخ پہلا شہری نہیں،جو اسٹریٹ کرائم کا شکار ہوا۔ اسی دن سندھ کے شہر ڈوکری سے آنے والے ایک تاجر نے کلفٹن کے پررونق علاقہ میں ایک بینک سے رقم نکالی جو شاید 30لاکھ سے زیادہ تھی۔ اس تاجرکی کار انڈرپاس میں داخل ہوئی، موٹر سائیکل پر سوار ایک نوجوان نے کار رکوائی اور رقم چھیننے کی کوشش کی۔ اس دوران اس نوجوان نے تاجر پر براہِ راست گولی چلائی اور بغیرکسی پریشانی کے رقم لوٹ کر اپنی کمین گاہ میں محفوظ طریقہ سے پہنچ گیا۔

وزیر اطلاعات سعید غنی نے کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی مسلسل وارداتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ بے روزگاری اور مہنگائی اسٹریٹ کرائم بڑھنے کی بنیادی وجوہات ہیں۔‘‘ جب ذرائع ابلاغ پر شاہ رخ کے قتل کا ذکر ہوا تو کراچی پولیس کو متحرک ہونا پڑا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائل کے فضاء میں موجودہ سگنلزکی احتیاط سے جانچ پڑتال ہوئی اور پولیس کی ایک ٹیم نے ایک شخص کا پتہ چلایا۔

پولیس نے گلستان جوہر میں رات کو ایک ہوٹل پر چھاپہ مارا۔ اس ہوٹل والے نے فٹ پاتھ پرکرسیاں سجائی ہوتی تھیں اور ساتھ میں کاروں کا شوروم ہے۔ پولیس نے ایک اعلامیہ میں بتایا کہ جب پولیس پارٹی نے ملزم کوگھیر لیا تو ملزم نے گرفتاری دینے کے بجائے خود کو گولی مار لی۔ پاکستان میں عمومی طور پر پولیس کی حراست میں ملزمان خودکشی کرتے ہیں۔ اس واقعے کی تحقیقات نہیں کرائی گئیں۔

بعد ازاں مرنے والے ملزم کے بارے میں ایسے انکشافات ہوئے کہ کراچی پولیس کا ڈھانچہ لرز گیا۔ پولیس کی تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ ملزم پولیس کا باقاعدہ ملازم تھا ، اسے دو دفعہ معطل کیا گیا۔ ملزم کے خلاف منشیات فروشی اور ناجائز اسلحہ رکھنے کے الزام تھے، ایک الزام مس کنڈکٹ کا بھی تھا۔ دستیاب سروس ریکارڈ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایس پی ہیڈ کوارٹر ویسٹ نے اس معاملہ کی تحقیقات کی تھی۔ اس وقت کے ڈی آئی جی ویسٹ کے دستخط سے اس کی بحالی کا خط جاری ہوا۔

جنوری 2021 میں ملزم سرجانی ٹاؤن کے گھر سے سونا اور نقدی چوری کرنے اور پھر ایک لاکھ روپے بھتہ لینے پر معطل ہوا۔ ایس ایس پی ویسٹ نے تحقیقات کیں اور ایک دفعہ پھر ڈی آئی جی ویسٹ  نے اس کو بحال کیا۔ملزم کے سروس ریکارڈ سے یہ حقائق بھی آشکار ہوئے کہ ملزم نے 12 سال پولیس میں نوکری کی اور دس مرتبہ اس کو شوکاز نوٹس ملے۔

ملزم ایک خوش نصیب شخص تھا، یوں ہر دفعہ وہ کسی کارروائی سے بچ گیا اور ملزم کوکبھی کوئی سزا نہیں ملی۔ شاہ رخ کے قتل کے وقت ملزم ایس ایس پی ویسٹ کے دفتر میں فرائض منصبی ادا کر رہا تھا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملزم کی خواہش پر اس کی ڈیوٹی رات کو لگائی جاتی تھی اور وہ بیشتر وارداتیں رات کوکرتا تھا۔

سردیوں میں وسطی ایشیائی ممالک سے پرندے ہجرت کرتے ہیں۔ یہ پرندے ملیر کے مضافاتی علاقے ٹھٹہ اور بدین کی جھیلوں اور درختوں پر چہچہاتے ہیں۔ ان پرندوں کی آمد اس علاقہ میں ماحولیات کے لیے ایک تحفہ سمجھی جاتی ہے۔ ناظم جوکھیو ملیر اور ٹھٹہ کی سرحد پر واقع سالارگوٹھ کا رہنے والا تھا۔ ناظم جوکھیو علاقہ کے ماحولیات کے تحفظ میں خاصی دلچسپی لیتا تھا۔ گزشتہ سال نومبر کے آغاز پر پرندوں کی آمد شروع ہوئی۔

اس علاقہ کے ایک بااثر آدمی نے غیر ملکیوں کو پرندوں کے شکار کی دعوت دی۔ ناظم جوکھیوکا اس غیر ملکی پارٹی سے آمنا سامنا ہوا۔ ناظم جوکھیو نے ان لوگوں کو شکار سے منع کیا اور وڈیو بنائی۔ ان غیر ملکی افراد کے گارڈز نے ناظم جوکھیو کو دھکے دیے ، تو اس نے یہ وڈیو وائرل کردی۔ ناظم جوکھیو کو رات کو ایک بااثر شخصیت نے بلایا۔ ناظم نے اس واقعہ کی آڈیو اپنے وکیل دوست مظہر ایڈووکیٹ کو بھجوا دی۔ ناظم جوکھیو کو اس کا بھائی افضل جوکھیو اس بااثر شخص کے گھر لے گیا جہاں اس کے ملازمین نے اس پر تشدد کیا اور حکم دیا کہ معافی مانگے اور سوشل میڈیا پر وائرل کی جانے والی وڈیوکو ڈیلیٹ کرے۔

ناظم نے معافی مانگنے سے انکارکیا۔ ملازمین نے افضل سے کہا کہ وہ چلا جائے، یہ بعد میں آئے گا۔ افضل جوکھیو نے بھائی پر زور دیا کہ وہ معافی مانگے اور وڈیو ڈیلیٹ کردے مگر ناظم تیار نہ ہوا۔ 3 نومبر کی صبح ناظم جوکھیوکی تشدد شدہ لاش ملی۔ پہلے پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکارکیا تو ناظم جوکھیو کے چاہنے والوں نے نیشنل ہائی وے پر دھرنا دیا جس کی وڈیو سوشل میڈیا پر لائیو چلتے ہی اخبارات میں اس احتجاج کی خبریں شائع ہوئیں ، پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔ صوبائی وزراء نے بیانات دیے کہ حکومت سندھ غیر جانبدار ہے۔

ملزمان نے عدالتوں سے قبل از گرفتاری کی ضمانتیں کرائیں۔ اس دوران نامعلوم قوتوں کے دباؤ پر ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو نے پولیس کو بیان دیا کہ کوئی بااثر سیاسی شخصیت اس معاملہ میں ملوث نہیں۔ کرائم کی رپورٹنگ کرنے والے رپورٹروں کا کہنا ہے کہ جب بھاری رقم کے عوض پولیس کے محکمہ میں تبادلے اور تقرریاں ہونگی تو ملزمان پولیس کی وردی میں محفوظ رہیں گے ، نتیجتاً شاہ رخ کی بوڑھی والدہ اور ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو سمیت بہت سے مظلوموں کو انصاف نہیں ملے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔