کامیاب پی ایس ایل بہت ضروری ہے

سلیم خالق  جمعرات 27 جنوری 2022
کامیاب لیگ سے ہم آسٹریلیا اور انگلینڈ کے لیے بھی کوئی بہانہ نہیں چھوڑیں گے۔ فوٹو : ایکسپریس

کامیاب لیگ سے ہم آسٹریلیا اور انگلینڈ کے لیے بھی کوئی بہانہ نہیں چھوڑیں گے۔ فوٹو : ایکسپریس

’’تم پاکستانی کورونا سے ڈرتے نہیں ہو، مجھے پتا چلا کہ وہاں بہت کم لوگ ماسک پہنتے ہیں اور احتیاطی تدابیر بھی اختیار نہیں کرتے،ویسے یہ بات ماننے کی ہے کہ پھر بھی وائرس تمہارے ملک میں زیادہ مہلک ثابت نہیں ہوا‘‘۔

ورلڈکپ کے لیے جب میں دبئی گیا تھا تو وہاں ایک دوست اپنے دفتر لے گیا وہاں ہم کینٹین بھی بیٹھے چائے پی رہے تھے تو کرکٹ کا شوقین ایک گورا بھی آ گیا، بات سے بات نکلی تو کورونا تک پہنچ گئی تو اس نے یہ جملے کہے، میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ یہ صرف اللہ کا کرم ہے کہ پاکستان کورونا کے مہلک وار سے بچا ہوا ہے، ورنہ ہم نے بداحتیاطی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اب تو پھر بھی لوگوں کو وائرس کے ساتھ جینے کی عادت ہو گئی جب ویکسین نہیں آئی تھی تب بھی کون سا یہاں کسی کو خوف تھا،ان دنوں اومی کرون نے دنیا بھر میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔

کراچی میں بھی مثبت کیسز کی شرح 40 فیصد سے زائد ہو چکی، اس کے باوجود آپ باہر نکل جائیں اور دیکھیں کتنے لوگوں نے ماسک پہنے ہیں یا احتیاط کر رہے ہیں؟ حکومت بھی زیادہ سختی نہیں دکھا رہی، گذشتہ دنوں لاہور جانا ہوا، سنا تھا بغیر ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ کے فضائی سفر کی اجازت نہیں مگر کسی نے اس حوالے سے پوچھا تک نہیں، اب پی ایس ایل آنے والی ہے تو انہی وجوہات کی بنیاد پر تشویش ہے کہ کہیں یہ غیر سنجیدگی لیگ کو نقصان نہ پہنچا دے،گذشتہ دونوں برس کورونا کیسز کی وجہ سے ہی درمیان میں ہی روکنا پڑا تھا اور تاخیر سے اختتام ہوا، چھٹا ایڈیشن تو یو اے ای میں مکمل کیا گیا تھا۔

اس بار غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، اگر ایونٹ روکا تو بعد میں رواں برس تکمیل کیلیے کوئی اور ونڈو نہیں ملے گی، دبئی میں بھی ان دنوں کیسز بڑھ چکے ہیں وہ آپشن بھی استعمال کرنا آسان نہ ہوگا، اس لیے پی سی بی نے تہیہ کرلیا ہے کہ کچھ بھی ہو ہر حال میں لیگ کو مقررہ تاریخوں میں ہی مکمل کرائیں گے،اس کیلیے پلئینگ کنڈیشنز میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں، پوری پلیئنگ الیون مقامی کھلاڑیوں کی بھی بنائی جا سکتی ہے۔

البتہ امید ہے ایسا نہیں ہوگا، مقابلے سے بھرپور کرکٹ اور غیرملکی اسٹارز ہی پی ایس ایل کی شان ہیں، لوکل کرکٹرز ہی کھیلے تو یہ قومی ٹی ٹوئنٹی کپ بن جائے گی، فرنچائزز کو اس بار کروڑوں کا فائدہ ہونا ہے، پی سی بی تو ہمیشہ سے ہی کماتا ہے، اربوں روپے داؤ پر لگے ہیں اس لیے سب کی کوشش ہے کہ پی ایس ایل کا بروقت انعقاد ہو، شائقین پورا سال اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو ایکشن میں دیکھنے کا انتظار کرتے ہیں۔

ان کی خوشی کیلیے بھی لیگ کا ہونا ضروری ہے، مگر یہ منتظمین کے لیے سخت چیلنج ہے،آغاز سے قبل ہی کورونا کیسز سامنے آ رہے ہیں،کھلاڑی،آفیشلز،بورڈ حکام،ہوٹل اسٹاف سب زد میں آ چکے، پشاور زلمی کے تو چار کرکٹرز وائرس کا شکار ہو چکے،گوکہ پی سی بی نے بائیو سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے ہیں، کراچی میں تو پورا ہوٹل بھی بک کرا لیا گیا مگر جس طرح کے حالات ہیں۔

اس میں کورونا سے بچنے کی سو فیصد ضمانت نہیں دی جا سکتی،زیادہ اچھا یہ ہوتا کہ اس بار بھی ببل کو سنبھالنے کیلیے غیرملکی کمپنی کی خدمات حاصل کر لی جاتیں مگر نجانے کیوں بورڈ نے ایسا نہیں کیا،اعلانات تو بہت ہوئے ہیں بس اب عمل بھی کرنا ہوگا، اگر کوئی بھی بائیو سیکیور ببل کی خلاف ورزی کرے تو چاہے کتنا بھی بڑا نام ہو اسے گھر بھیج دیا جائے تاکہ دوسروں کو کچھ تو سبق ملے، اب وائرس کو تیسرا سال ہے دنیا بھی بے زار ہوتی جا رہی ہے۔

معیشت کی تباہی روکنے کیلیے انگلینڈ جیسے ملک نے پابندیوں میں نرمی کا اعلان کر دیا، آسٹریلیا میں اتنے کیسز آتے رہے مگر انھوں نے گھروں سے بلا کر لوگوں کو کھلایا اور بگ بیش کو جاری رکھا،پاکستان کو بھی ایسا کرنا ہوگا مگر ایونٹ کی مسابقت ختم نہ ہو یہ خیال رکھنا ضروری ہے۔

اسٹیڈیم میں صرف 25 فیصد شائقین کو آنے کی اجازت ملی ہے، ایک طرح سے یہ پی سی بی کی ’’فیس سیوئنگ‘‘ ہی ہو گئی کیونکہ آپ مانیں یا نہ مانیں اس بار پی ایس ایل کی پہلے جیسی ہائپ نہیں بنی، بورڈ نے نجانے کیوں سستی برتی، گانا بھی بہت تاخیر سے ریلیز کیا گیا۔

ایسے میگا ایونٹس کی کئی ماہ پہلے پروموشن شروع کرنی چاہیے، سو فیصد شائقین کی اجازت پر بھی ابتدا میں بمشکل اسٹیڈیم آدھا بھر پاتا،حکام غیرملکی بڑے ناموں کو بھی متوجہ نہیں کر پائے، البتہ ہمارے تمام سپراسٹارز شریک ہیں جس سے شائقین کو اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔

یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ پی ایس ایل میں زبردست مقابلے ہوتے ہیں، چند میچز کے بعد ہی ایونٹ میں دلچسپی بڑھنے لگے گی،جب تک لاہور میں لیگ منتقل ہو گی کرکٹ کا بخار پورے پاکستان کو لپیٹ میں لے چکا ہوگا، لوگ بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی کا مقابلہ دیکھنے کے منتظر ہیں،معیاری ٹیلی ویژن کوریج بھی لازمی ہے، اس کا بھی ایونٹ کی دلچسپی میں اہم کردار ہوتا ہے۔

اس بار لیگ کے زیادہ تر معاملات سی او او سلمان نصیر دیکھ رہے ہیں، جو لوگ پہلے وسیم خان کو پاکستان کرکٹ کا نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے تھے انھوں نے اب اپنی کرسی محفوظ رکھنے کیلیے سلمان کا دامن تھام لیا ہے، ہم بھی فی الحال یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت کے خلاف کیس میں کروڑوں روپے کا نقصان کیسے ہوا،کس نے طوفانی رفتار سے سیلری میں صفر بڑھائے اور ترقی کی منازل طے کیں،اس وقت تو سب سے اہم بات کامیاب پی ایس ایل کا انعقاد ہے۔

اس پر ہی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا انحصار ہوگا،کامیاب لیگ سے ہم آسٹریلیا اور انگلینڈ کے لیے بھی کوئی بہانہ نہیں چھوڑیں گے اور انھیں شیڈول کے تحت پاکستان آنا ہوگا، گذشتہ برس پاکستان کرکٹ کیلیے اچھا ثابت ہوا، ٹیم کی بہتر کارکردگی کے ساتھ کھلاڑیوں نے انفرادی طور پر بھی خوب اعزاز حاصل کیے، بابر اعظم، محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی خصوصاً داد کے مستحق ہیں، امید ہے یہ سلسلہ رواں برس بھی جاری رہے گا، پی ایس ایل سے اچھا آغاز کریں پھرانشااللہ رواں برس بھی ملکی میدان آباد ہی رہیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔