فرنٹ فٹ پر کھیل

ڈاکٹر یونس حسنی  جمعـء 28 جنوری 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

موجودہ حکمران ایک بار پھر (ن) لیگ پر برس پڑے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ سیاسی جماعت نہیں مافیا ہے۔ یہ ایسے مجرموں پر مشتمل ہے جن سے ڈیل کرنا غداری کے مترادف ہے۔ اسی ذیل میں انھوں نے پارٹی ترجمانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ’’ فرنٹ فٹ ‘‘ پر کھیلیں۔

تحریک انصاف کی قیادت نے اقتدار میں آنے سے قبل ہی فرنٹ فٹ پر خود کھیلنے کی ابتدا کی تھی جب وہ کنٹینر پر چڑھ کر اس وقت کی (ن) لیگی حکومت پرگرجتے برستے تھے اور ان کا لہجہ اور طرزگفتگو جارحانہ ہوتا تھا۔

اس جارحانہ انداز کے ذریعے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ایک مختلف قسم کا پارلیمانی مزاج اور انداز رائج کیا اور اپنی قیادتکی دیکھا دیکھی ان کے دیگر مقامی لیڈروں نے ان سے زیادہ جارحانہ زبان اور طرزگفتگو اختیار کیا ۔

ہونا یہ چاہیے تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کے مزاج میں ٹھہراؤ آجاتا مگر ہوا یہ کہ ٹھہراؤ کے بجائے اس تیزی و تندی میں ایک تحکم بھی پیدا ہو گیا۔ اسی کے ساتھ ایک اور مخلوق بھی وجود میں آئی جسے ترجمان کہا جاتا ہے۔ حکومتوں کے ترجمان اس لیے ہوتے ہیں کہ حکومت کی کارکردگی کی اطلاع عوام تک پہنچائیں۔ حکومت کے اقدامات سے عوام کو آگاہ کریں ، نیز ملکی ترقی میں اپنے عوام کی شمولیت اور حمایت کو یقینی بنائیں۔

مگر تحریک انصاف نے جس سیاسی کلچر کو فروغ دیا تھا اس میں ترجمان کا فرض حکومتی اقدامات کی وضاحت سے کہیں زیادہ حزب اختلاف کے تمام لیڈروں اور ان کی جماعتوں کے کیڑے نکالنا تھا۔ پھر ان کیڑوں کی نشان دہی جس زبان اور جس انداز میں کی جاتی تھی اس کے موجد بھی وہ خود تھے اس لیے تمام لیڈر نہ صرف اسے برا نہیں سمجھتے تھے بلکہ علی الاعلان اس کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور حکم فرماتے کہ فرنٹ فٹ پر کھیلتے جاؤ۔

اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ترجمانی کے لیے لیاقت کا معیار زبان درازی قرار پایا۔ جو ترجمان زیادہ بلند و بانگ ہوتا وہ پسند کیا جاتا اور جو اس معیار پر پورا نہ اترتا اسے رخصت کردیا جاتا۔ چنانچہ اس وقت بھی ترجمانی پر خواہ وہ پنجاب حکومت کی ہو ، خیبرپختونخوا کی ہو یا مرکزی حکومت کی ہو ایسے لوگ آزمائے جا رہے ہیں جو زبان کے بھرپور استعمال پر قدرت رکھتے ہوں۔

اور تو اور ترجمانوں سے قطع نظر خود ایسے وزیروں کی کمی نہیں جو محض شور شرابے کو اظہار خیال سمجھتے ہوں اور جو محض اپنے اسی انداز کی بنا پر حکمرانوں سے قریب ہونا چاہتے ہوں اور ہو بھی جاتے ہوں۔

اب یہ کلچر ہماری معزز پارلیمان کا کلچر بن چکا ہے۔ کوئی کسی کو معاف کرنے کو تیار نہیں۔ کیا ہماری پارلیمانی لیڈر شپ میں کہیں کوئی قابل ذکر آدمی نہیں جس پر ڈاکو اور چور ہونے کا لیبل چسپاں نہ ہو سکے۔

موجودہ پارلیمان کی عمرکا یہ چوتھا سال ہے۔ موجودہ حکمران قیادت نے اس طویل عرصے میں ایک تو پارلیمان کو کم ہی اس قابل سمجھا ہے کہ وہاں تشریف لائے اور اگر لائے بھی تو اسی گھن گرج کے ساتھ کہ وہ اپوزیشن لیڈر سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا چاہتے۔

خود فرما چکے ہیں کہ وہ ان سے ہاتھ ملانے کے روادار نہیں۔ دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور موجودہ حکمران تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے جنھوں نے قائد حزب اختلاف کو کسی لائق ہی نہیں جانا حالاں کہ وہ بھی ان کی طرح عوام کا منتخب کردہ تھا ، بس بات اتنی سی تھی کہ اس کی پشت پر اتنے ممبران کی حمایت نہیں تھی جتنی انھیں حاصل ہے۔

اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب حکمرانوں اور حزب اختلاف کے درمیان اختلاف کی واقعی ایسی خلیج حائل ہو گئی ہے کہ یہ لوگ اب عام زندگی میں بھی ایک دوسرے کی زندگی اور موت کے امور میں ایک دوسرے سے بے تعلق ہو چکے ہیں۔ یہ انفرادی خوشیوں اور غموں میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک نہیں ہوتے اور یہ عام انسانی اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر اب صرف حکمراں اور حزب اختلاف کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔

ایسی صورت میں کیا یہ امور مملکت چلانے کا استحقاق رکھتے ہیں یا اسے کھو چکے ہیں۔ دستوری اعتبار سے بعض صورتیں ایسی ہیں جس میں وزیر اعظم اور حزب اختلاف کے لیڈر کی باہمی رضامندی سے کچھ فیصلے کیے جاتے ہیں جب وہ ایک دوسرے سے بات کرنے، ہاتھ ملانے یا سامنا کرنے کے بھی روادار نہ ہوں تو امور مملکت کیسے چلائے جائیں گے۔ کہا جاسکتا ہے کہ جیسے اب تک چلائے جاتے رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔