سندھ؛ پہلی بار سرکاری جامعات کا حکومتی سطح پر انسپکشن کا آغاز

صفدر رضوی  جمعـء 28 جنوری 2022
قبل ازیں نجی جامعات کا انسپکشن ہوتا تھا، قواعد وضوابط پر پورا نہ اترنے والی جامعات کیخلاف کارروائی کے اختیارات محدود ہیں، چیئرمین کمیٹی ۔ فوٹو : فائل

قبل ازیں نجی جامعات کا انسپکشن ہوتا تھا، قواعد وضوابط پر پورا نہ اترنے والی جامعات کیخلاف کارروائی کے اختیارات محدود ہیں، چیئرمین کمیٹی ۔ فوٹو : فائل

 کراچی: سندھ کی تاریخ میں پہلی بار سرکاری جامعات کا حکومتی سطح پر انسپکشن اور ان کی درجہ بندی آئندہ ماہ فروری سے شروع ہورہی ہے۔

چارٹر انسپکشن اینڈ ایویلیو ایشن کمیٹی 7 فروری کو این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا انسپکشن کرے گی جس کے ساتھ ہی یکے بعد دیگرے سرکاری جامعات کے انسپکشن کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

اس سے قبل چارٹر انسپکشن اینڈ ایویلیو ایشن کمیٹی سندھ میں قائم صرف نجی جامعات کا انسپکشن اور درجہ بندی کرتی تھی تاہم  کمیٹی کے سندھ ایچ ای سی کے ماتحت ہونے کے بعد نجی کے ساتھ ساتھ سرکاری جامعات کے انسپکشن کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

واضح رہے کہ ایک نجی یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر عاصم حسین گذشتہ 8 برس سے سندھ ایچ ای سی کے بھی چیئرمین ہیں۔  علاوہ ازیں چارٹر انسپکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹرطارق رفیع نے سرکاری جامعات کے انسپکشن اور درجہ بندی کے حوالے سے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ  کمیٹی نے کمیشن کی منظوری کے بعد انسپکشن اور درجہ بندی سے متعلق پروفارما سرکاری جامعات کو بھجوایا تھا۔

سب سے  پہلے ہمیں این ای ڈی یونیورسٹی کی جانب سے ان کے 26 شعبوں سے متعلق تفصیلات پر مبنی پروفارما موصول ہوا ہے جبکہ جامعہ کراچی سمیت دیگر جنرل اور میڈیکل جامعات کی جانب سے ابھی پروفارمے ملنے کا انتظار ہے جس کے بعد ان اداروں کا انسپکشن بھی ہو گا۔ واضح رہے کہ چارٹر کمیٹی نجی جامعات کے انسپکشن کے لیے انھی سے اخراجات کی مد میں فیس وصول کرتی ہے۔

تاہم سرکاری جامعات کے دوروں کے حوالے سے سندھ حکومت سے فنڈ مانگے گئے ہیں۔  ادھر ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر طارق رفیع نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اگر کوئی نجی یونیورسٹی طے شدہ قواعد و ضوابط کو پورا نہیں کرتی تو اس حوالے سے چارٹر کمیٹی کے پاس کارروائی کے اختیارات محدود ہیں اور وفاقی ایچ ای سی کی طرز پر کسی یونیورسٹی کے خلاف آج تک کارروائی نہیں کی جاسکی۔ درجہ بندی کے حوالے سے کیے گئے سوال پر آن کا کہنا تھا کہ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ سرکاری جامعات کی درجہ بندی شعبہ جاتی یا ڈسپلنز کی سطح پر ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔