اعلیٰ تخلیقی عمل کی خیالی کہانیاں

ایڈیٹوریل  اتوار 16 فروری 2014
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اراکین پارلیمنٹ کے ٹیکس گوشواروں کی ڈائریکٹری جاری کر دی ہے.  فوٹو: فائل

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اراکین پارلیمنٹ کے ٹیکس گوشواروں کی ڈائریکٹری جاری کر دی ہے. فوٹو: فائل

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اراکین پارلیمنٹ کے ٹیکس گوشواروں کی ڈائریکٹری جاری کر دی ہے۔ اس کے مطابق تمام اراکین پارلیمنٹ نے اپنا نیشنل ٹیکس نمبر حاصل کر رکھا ہے۔ 1172 میں سے 1072 ارکان پارلیمنٹ نے 30 جون 2013ء کو اختتام پذیر ہونے والے سال کے لیے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے، 100 ارکان نے گوشوارے جمع نہیں کرائے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے تین سو انیس ارکان نے انکم ٹیکس ریٹرن بھری ہے جن میں سے ایک سو آٹھ نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ اراکین اسمبلی کی طرف سے لکھی جانے والی ٹیکس  ریٹرنز پر ایک انگریزی معاصر نے the most imaginative fiction کی پھبتی کَسی ہے، یعنی بے حد تصور انگیز خیالی کہانیاں۔ واضح رہے کہ ایف بی آر کی جانب سے اراکین اسمبلی کی یہ اولین  ڈائریکٹری ہے۔ اس ڈائریکٹریکے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے 26 لاکھ 86 ہزار روپے ٹیکس جمع کرایا البتہ انھوں نے انکم سپورٹ لیوی ادا نہیں کی۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک لاکھ 94 ہزار روپے، وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے 8 لاکھ 24 ہزار روپے ٹیکس اور انکم سپورٹ لیوی کی مد میں 27 لاکھ  روپے ادا کیے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے 13 ہزار روپے ٹیکس جمع کرایا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمدشہباز شریف نے 36 لاکھ 44 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے 87 لاکھ 63 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ فاٹا کے سینیٹر عباس خان آفریدی نے سب سے زیادہ ایک کروڑ   80  لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا۔ سینیٹر طلحہ محمود نے ایک کروڑ 29 لاکھ‘ شیخ فیاض ایم این اے  نے ایک کروڑ ایک لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا۔  وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے کوئی ٹیکس نہیں دیا۔ خیبرپختونخوا سے رکن اسمبلی نور سلیم ملک نے ایک کروڑ 15 لاکھ ٹیکس ادا کیا۔

دوسری طرف محترمہ عائشہ ناز تنولی نے صرف اٹھاسی روپے، طاہر بشیر نے پچپن روپے اور محمد زین الہی نے بہتر روپے انکم ٹیکس جمع کرایا ہے۔ ٹیکس ڈائریکٹری میں دیگر اراکین اسمبلی کی جانب سے جمع کرائے جانے والے ٹیکس کی تفصیلات بھی شایع کی گئی ہیں جن کی معزز اراکین اسمبلی کے شاہانہ طرزِ زندگی سے کوئی نسبت نظر نہیں آتی۔ ایف بی آر کی ڈائریکٹری نے جہاں ہمارے معزز اراکین اسمبلی کی جانب سے جمع کرائے جانے والے ٹیکس کو عوام پر بے نقاب کر دیا ہے جو کہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس ڈائریکٹری میں ایک چیز کا تذکرہ عنقا ہے وہ یہ کہ مذکورہ معزز اراکین کے ذرایع آمدنی کیا کیا ہیں؟ وہ کیا کاروبار کرتے ہیں اور ایک سو روپے کی گنجائش نہ رکھنے والوں کا کچن کیسے چلتا ہے۔

اس حوالے سے بھی عوام کو آگاہ کیا جانا چاہیے‘ یقینی طور پر جن معزز ارکان پارلیمنٹ نے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ہیں‘ ان میں ان کے کاروبار کرنے یا کرنے کی بارے میں بھی تفصیل ہو گی‘ گوشوارے میں یہ بھی بتایا گیا ہو گا کہ ان کے پاس یا ان کے خاندان کے پاس کتنے پلاٹ‘ کوٹھیاں‘ فیکٹریا یا زرعی زمین ہو گی۔ عوام کو اس بارے میں آگاہی ہونی چاہیے بلکہ زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ الیکشن کے دوران ہر امیدوار کو پابند کیا جائے کہ وہ جلسہ میں تقریر کے دوران حاضرین جلسہ کو اپنے ٹیکس گوشوارے میں درج تفصیلات بھی سنائے تاکہ ووٹروں کو اپنے امید وار کے بارے میں پتہ چل سکے کہ اس کے ذرایع آمدنی کیا ہیں‘ وہ کتنا ٹیکس دیتا ہے اور اس کا لائف اسٹائل کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔