آپ کی اولاد کا مستقبل

طلعت حسین  اتوار 16 فروری 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

میرے اِکا دُکا پڑھنے والوں میں سے ایک قاری نے فون کر کے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نے مزاح نگاری شروع کر دی ہے۔ میں نے اس سے سوال کے اسباب سے متعلق تفتیش کی تو پتہ چلا کہ موصوف کو میرا بالواسطہ انداز بیان پسند نہیں ہے۔ ان کے خیال میں جیسے میں پہلے لکھتا تھا یعنی براہ راست اور لگی لپٹی کے بغیر وہ طریقہ کار زیادہ موثر تھا۔ طنز اور مزاح میں جملہ خیال پر بھاری ہو جاتا ہے۔ پیغام ہلکے پھلکے انداز میں پہنچ تو جاتا ہے لیکن اپنا وزن کھو دیتا ہے۔ میں نے ان سے اتفاق نہیں کیا لیکن چونکہ انھوں نے وضاحت طلب کی تھی میں نے جواب تفصیل سے دیا۔ یہ اصول اپنانے کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہم سیدھی بات سننے کا حوصلہ کھو چکے ہیں۔ سچ سننا اور وہ بھی خالص سچ کسی کو قابل قبول نہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف سچ کی زد میں آنے کے بعد تمام ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لکھنے والے کی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں۔ قاری کے پسند کے لیڈر یا شخصیت کے بارے میں دو تنقیدی جملے احتجاج کا بگولہ بلند کر دیتے ہیں۔ کسی کے نظریے کے خلاف لکھا جائے تو وہ نہ خود سوتا ہے نہ آپ کو سونے دیتا ہے۔

چونکہ آج کل فون نمبر ہر کسی کو دستیاب ہے۔ لہذا ایسے ایسے پیغام آتے ہیں کہ خدا کی پنا ہ۔ جو کوئی ایس ایم ایس لکھ سکتا ہے وہ خود کو تجزیہ نگار سمجھتا ہے۔ ایسے میں سیدھی بات زندگی اجیرن کر سکتی ہے۔ بڑے معاملات پر براہ راست انداز سے سچ لکھنا اور بھی خطرناک ہے۔ جس ملک میں ریاست اور اس کے طاقت ور ترین ادارے حقائق سے منہ چھپا کر پھر رہے ہوں، جہاں پر کسی میں ریاست پر حملوں کے خلاف پریس ریلیز جاری کرنے کی ہمت نہ ہو، جب سب کے سب قومی فکر کے معاملات کو چھوڑ کر پلاٹوں اور پرمٹوں کی خریدو فروخت میں خود کو مصروف رکھے ہوئے ہوں۔  وہاں پر سچی بات کون سنے گا اور کرنے والے کی جان بخشی کون کرے گا۔ ان حالات میں مجھے مجبوراً اپنا پیغام پہنچانے کے لیے وہی طرز تحریر اپنانا پڑا ہے جس کے نقصانات بھی کم ہیں اور جو چھپ بھی سکتا ہے۔ (اس جملے میں لکھنے اور چھاپنے والے کی جو مجبوری چھپی ہوئی ہے اس پر کبھی ایک مکمل کتاب لکھوں گا، فی الحال ایک جملے پر ہی اکتفا کیجیے)۔ اس کالم میں بھی آپ کو میرا قلم ترچھا ہی نظر آئے گا۔ جو قارئین اس کو پسند نہیں کر رہے ان سے گزارش ہے کہ صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔ حالات بہتر ہوتے ہی سیدھے قلم سے مکمل روشنائی استعمال کرتے ہوئے لکھوں گا۔

آیئے اب آج کے موضوع پر بات کرتے ہیں۔ اگر آپ نے اپنی اولاد کے لیے کسی شعبے کا انتخاب کر لیا ہے تو اپنے منصوبے ترک کر دیجیے۔ اس کو ڈاکٹر یا انجنیئر بنانے کی ضرورت نہیں۔ نہ بزنس مینجمینٹ سکھانے کی ضرورت ہے نہ آئی پروفیشنل بنانے کی۔ قانون کی تربیت اور اس میں ڈگری حاصل کرنا بھی فضول ہے۔ لکھنے پڑھنے والے شعبے یعنی تحقیق، تدریس، صحافت اور ان جیسے دوسرے غیر ضروری پیشے جیسے معیشت اور ترقیاتی کاموں کا شعبہ وغیرہ بھی آپ کی اولاد کے مستقبل کی ضمانت نہیں دے سکتے یا کم از کم آپ وہ تمام خواب پورے نہیں کر سکتے جو تمام والدین اپنے بچوں کے لیے دیکھتے ہیں۔ ہمارے لیے بہترین شعبہ سیاست کا ہے۔ دیکھنے میں مشکل لگتا ہے۔ لیکن اس کے فوائد کی فہرست دیکھیں تو یہ مشکلات بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہیں۔ یہ واحد کاروبار ہے جس میں منافع سرمایہ کاری سے سیکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں گنا زیادہ ہے۔ آپ دیکھ لیجیے پاکستان میں ڈگری کے بغیر سیاست دان بہت ملیں گے۔ مگر دولت کے بغیر کوئی نہ ہو گا۔

اس شعبے میں آنے کے بعد آپ یہ محسوس کریں گے کہ بہت سے ایسے قوانین جو سب پر لاگو ہیں آپ ان سے مبرا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس پر قوم کو یقین کرنا پڑتا ہے چونکہ آپ  ایک ایسے انتخابی عمل کے ذریعے آئے ہیں جس میں آپ نے عوام کے ٹیکسوں سے ترقیاتی کام کر کے اپنا نام بنایا ہے اور پھر انھی کو احسان مند کرتے ہوئے انھی کے ووٹوں کے ذریعے ان پر حکومت کرنے کا حق بھی حاصل کیا ہے۔ کمال ہے یا نہیں۔ نوٹ بھی عوام کے ووٹ بھی عوام کے۔ سرداری اور کاروباری فائدے سب آپ کے۔ ٹیکس وغیرہ دینے کی زحمت تو کم ہی کرنی پڑتی ہے اور جب آپ کھربوں روپے کمانے کے بعد دس بیس ہزار یا چند لاکھ ٹیکس دے بھی دیتے ہیں تو اخباروں میں ایسے خبریں چھپتی ہیں جیسے آپ نے اس سر زمین پر احسان عظیم کیا ہے۔ آپ محلات میں رہ سکتے ہیں۔ درجنوں قیمتی گاڑیوں کے مالک ہو سکتے ہیں۔ آپ کی کلائی پر گھڑی کی قیمت سے پچاس اسکول بن سکتے ہیں۔

آپ نے اپنے بیٹے بیٹیاں، داماد، مامے چاچے، کزن، دوست یار، نوکر چاکر، کتے بلیاں، چرند پرند سب کے لیے ملک سے باہر بہترین انتظام کیا ہوا ہے۔ آپ کا زندگی گزارنے کا طریقہ مغل بادشاہوں جیسا ہے۔ لیکن پھر بھی ریاست کو چند ’’روپلیاں‘‘ دے کر آپ صحافیوں کا دل جیت سکتے ہیں۔ ویسے اگر آپ ٹیکس نہ بھی دیں تو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈائریکٹری ہمیں بتا رہی ہے۔ مگر جو ایف بی آر کی ڈائریکٹری نہیں بتا رہی اس پر کوئی توجہ نہیں دے گا۔ چونکہ آپ شعبہ سیاست سے منسلک ہیں۔ مثلا کھربوں کے اثاثے رکھنے والے جو چند لاکھ ٹیکس دیتے ہیں وہ اس ریاست سے اس سے ہزار گنا زیادہ مراعات دوسر ے فوائد کے علاوہ حاصل بھی کرتے ہیں۔ اگر میں 57 ہزار ٹیکس دیکر اپنے علاقے میں تمام پٹواری اپنی مرضی کے لگوا سکتا ہوں تو مجھ سے آپ سالانہ نہیں روزانہ اتنا ٹیکس لے لیجیے میں پھر بھی فائدے میں رہوں گا۔ پچاسوں افراد میری خدمت پر مامور ہیں۔ گاڑی، سفر، ٹیلی فون، کھانا پینا اور بچوں کی تعلیم سب کچھ مفت ہے۔ اس سے بڑھیا سودا اور کیا ہو گا؟

ہاں یہ کالم ختم کرنے سے پہلے ایک اور فائدہ بھی گنواتا چلوں۔ آپ کرکٹ کھیلتے ہوں یا ٹوپیاں سیتے ہوں۔ چاہے آپ نے کبھی کوئی کتاب پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو آپ کے شوق اور ذوق جو بھی ہوں  سیاست کے دروازے میں سے گزرنے کے بعد آپ ہر فن مولا ہو جاتے ہیں۔ حتی کہ آپ کو یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ جنگیں کیسے لڑی جاتیں ہیں۔ عسکری لائحہ عمل کیسے بنتے ہیں۔ خود مختاری کے تحفظ کی پالیسیا ں کن عناصر سے ترتیب پاتی ہیں۔ آپ معیشت کو باریکیوں سمیت سمجھ لیتے ہیں۔ اگلے جہانوں میں ہونے والا حساب کتاب بھی آپ پر عیاں ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی اور بڑی بڑی خوبیاں آپ سیاست میں آنے کے بعد فوراً  پا لیتے ہیں (اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ آپریشن میں تیس یا چالیس فی صد کامیابی کی بات کر کے عمران خان نے حقیقت ہی بیان کی ہو گی۔ چونکہ وہ لیڈر ہیں لہذا وہ صحیح علم اور فہم رکھتے ہیں۔ حقائق کو چھوڑ دیجیے ان کی بات مان لیجیے۔ بالکل ویسے ہی جیسے آپ نواز شریف اور بلاول بھٹو کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں) قصہ مختصر اپنی اور اپنی اولادوں کے لیے بہتر مستقبل حاصل کیجیے۔ اسلامی ریئل اسٹیٹ آف پاکستان کے سیاسیات کے شعبے پر توجہ دیجیے آپ کبھی خسارے میں نہیں رہیں گے ۔۔۔

آپ کی اولاد کا مستقبل

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔