اشرافیہ، فوج اور بیوروکریسی

مقتدا منصور  اتوار 16 فروری 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان اس وقت جس انتہائی تشویشناک صورتحال سے دوچار ہے اس کی وجہ وہ ان گنت بحران ہیں، جو وقت گزرنے کے ساتھ گہرے ہوتے چلے گئے ہیں۔ ان بحرانوں کی جڑیں دو کلیدی بحرانوں میں پیوست ہیں۔ جن میں ایک ریاست کے منطقی جواز کا غیر واضح اور مبہم تصور ہے، جب کہ دوسرا نظم حکمرانی کا بحران ہے۔ اول الذکر بحران کے نتیجے میں 43 برس قبل ملک دو لخت ہو چکا ہے۔ مگر اس المیے سے سبق سیکھنے کے بجائے ریاست کے منطقی جواز کو مزید مبہم اور غیر واضح بنا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں منتخب حکومتیں عالمی دبائو پر بحالت مجبوری قائم کی جاتی ہیں۔ مگر یہ حکومتیں محض نمائشی ہوتی ہیں، کیونکہ انھیں پالیسی اور فیصلہ سازی پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ جن سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہوتی ہیں، وہ سیاسی ارتقائی عمل کا حصہ نہ ہونے کے سبب عوامی جذبات و احساسات کی ترجمان بننے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی کو اپنے اقتدار کے تسلسل کی ضمانت تصور کرتی ہیں۔ اس لیے منتخب حکومتیں اپنی سرشت میں کسی بھی طور جمہوری نہیں کہلائی جا سکتیں۔

پاکستان کی سیاسی و سماجی پسماندگی پر مختلف اہل قلم نے مختلف زوایہ نگاہ سے بہت کچھ تحریر کیا ہے، لیکن حمزہ علوی مرحوم پاکستان کے شاید وہ پہلے سماجی دانشور تھے جنہوں نے پاکستان کی سماجی ساخت  (Fabric) کا خاصی گہرائی میں اتر کا مطالعہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ان تحاریک کا بھی جائزہ لیا جو تقسیمِ ہند سے قبل برٹش انڈیا میں شروع ہوئیں اور جن کے اثرات تقسیم کے بعد وجود میں آنے والی نئی ریاست پاکستان کے سیاسی، سماجی اور فکری رجحانات پر براہ راست مرتب ہوئے۔ خاص طور پر خلافت تحریک پر ان کا تنقیدی مقالہ خاصا وقیع اور معلوماتی ہے۔ اس مقالے میں انھوں نے اس تحریک کے حوالے سے بعض اہم سوالات اٹھائے، جنہوں نے اس تحریک کے بارے میں اس رومانیت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جو عام مسلمانوں کے ذہن میں پیدا ہو چکی تھی۔ چونکہ وہ خود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم رہے اور وہاں ہونے والی سرگرمیوں کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا، اس لیے تحریک پاکستان کے بارے میں ان کے تصورات اور جائزے زیادہ حقیقت پسندانہ ہیں۔ انھوں نے برطانوی ہند میں مروج طریقہِ پیداوار کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کا یورپ کے پیداواری طریقہ سے تقابلی جائزہ بھی لیا۔ جس سے پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر دیہی معاشرت کے اثرات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد انھوں نے کسانوں کی زندگی میں آنے والی مشکلات کا عملی جائزہ لینے کے لیے چند ماہ ساہیوال کے قریب ایک گائوں میں گزارے اور ہاریوں اور مزارعوں کی زندگی کا بہت قریب سے مطالعہ اور مشاہدہ کیا۔ اس طرح انھیں پاکستان کی زرعی معیشت میں رونماء ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔ پاکستانی سیاست پر فیوڈل اثرات اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر انھوں نے کئی معرکتہ الآرا مضامین تحریر کیے، جو ریاست اور سیاست کے تعلق پر اہم تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح1962ء میں انھوں نے امریکی امداد کے پاکستان کی معیشت پر اثرات کے بارے میں اس وقت اپنا شہرہ آفاق مضمون The Burden of US Aid تحریر کیا، جب عوام تو دور کی بات، اہل دانش بھی اس کے مضمرات سے بے خبر تھے۔ آج ہر فرد امریکی امداد اور اس کے قومی تشخص پر اثرات کے حوالے سے جس پریشانی اور الجھن کا شکار ہے، اس کا اظہار حمزہ علوی 52 برس پہلے کر چکے تھے۔

1980ء کے عشرے میں جب سندھ کے شہری علاقوں میں لسانی تفاوت میں شدت پیدا ہوئی اور نا رکنے والی خونریزی کا سلسلہ شروع ہوا، تو اس صورتحال کے بارے میں مختلف دانشور مختلف نوعیت کی تاویلیں پیش کر رہے تھے۔ مگر حمزہ علوی مرحوم نے اس صورتحال کا سماجی تناظر میں ناقدانہ جائزہ لیا اور اسے ریاست کے اندرونی تضادات اور اربن تنخواہ دار (Salaried)  طبقے کے بڑھتے ہوئے مسائل کا شاخسانہ قرار  دیا۔ انھوں نے سندھ میں مہاجر سیاست اور ایم کیو ایم کے ظہور میں آنے کے ردعمل میں سندھی قوم پرستی کے پھیلائو کا بھی مختلف زاویوں سے جائزہ لیا۔ اس موضوع پر ان کے مضامین کا اردو ترجمہ سہ ماہی ارتقاء میں سلسلہ وار شایع ہوا۔  اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آباد قومیتوں کو  دبا  کر سرکاری سطح پر قومی وحدت پیدا کرنے کا جو غیر فطری طریقہ اختیار کیا گیا،  اس نے اس ملک کو ان گنت مسائل کی گرداب میں پھنسا دیا۔ اسی طرح ان کا خیال ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے بعد علاقائی قوم پرستی کو پروان چڑھانے میں درمیانہ طبقے کے اس شہری گروہ کا کلیدی کردار رہا ہے، جو بنیادی طور پر تنخواہ دار حیثیت کا حامل ہے۔

حمزہ علوی مرحوم 1966ء سے مختلف عالمی جامعات میں درس و تدریس سے وابستہ رہے، جس کی وجہ سے انھیں مختلف سماجی امور پر تحقیق کرنے کا وسیع تر موقع ملا۔  چونکہ انھیں مختلف جامعات اور فورمزپر اپنے خیالات پیش کرنا ہوتے تھے، اس لیے وہ مختلف سیاسی و سماجی موضوعات پر کتابیں تحریر کرنے کے بجائے زیادہ تر مقالاجات تحریر کرنے پر مجبور رہے۔ خاص طور پر انھوں نے خلافت تحریک، زرعی معیشت، پاکستان میں قومی شناخت اور سندھ میں قومیتی تفاوت، امریکا کے اس خطے میں مفادات جیسے موضوعات پر مبسوط مقالے تحریر کیے،  جو قارئین کی فکری رہنمائی کے لیے خاصے اہم ہیں۔ ان مقالاجات کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے مختلف حلقوں اور جرائد نے ان کا اردو میں ترجمہ کرا کے انھیں عوام کے ایک بڑے طبقے تک پہنچانے کی کو شش کی۔ اس سلسلے میں جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ سہ ماہی ارتقاء نے ان کے سندھ میں پیدا ہونے والے قومیتی تضادات پر مبنی مضامین کو سلسلہ وار شایع کر کے عوامی حلقوں میں روشناس کرایا۔ اس کے بعد ڈاکٹر مبارک علی کی زیر ادارت شایع ہونے والے سہ ماہی تحقیقی جریدے تاریخ میں جاگیرداری، خلافت تحریک اور مختلف قومیتی مسائل پر ان کے مضامین کا ترجمہ شایع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

سہ ماہی تاریخ کے لیے حمزہ علوی مرحوم کے مضامین کو اردو کے قالب میں معروف دانشور اور شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈٹیکنالوجی (Szabist) میں ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے ڈھالا ہے۔ ان مضامین کے تراجم کو کتابی شکل میں تاریخ پبلی کیشنز نے شایع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب میں زرعی معیشت اور جاگیرداری پر حمزہ علوی کے مضامین کو شامل کیا گیا۔ اب پاکستانی اشرافیہ، فوج اور نوکر شاہی کے عنوان سے شایع ہونے والی کتاب میں چار کلیدی موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہے، جن میں متعلقہ ذیلی موضوعات شامل ہیں۔ پہلا عنوان پاکستان میں قومیت اور قومیتیں ہے۔ اس عنوان کے تحت سرکاری قوم پرستی، تنخواہ دار طبقہ، تنخواہ دار بنیادوں پر چلائی گئی تحاریک، مہاجر سیاست اور ایم کیو ایم کا ظہور، سندھی شناخت کی توسیع اور بائیں بازو کی آگہی جیسے موضوعات پر لکھے گئے مقالات کو شامل کیا گیا ہے۔

پاکستان : امریکی امداد کے بوجھ تلے کے عنوان کے تحت کینیڈی کا المیہ، گلبرتھ منصوبہ، امریکی امداد کا پاکستان میں داخلہ، فوجی امداد کے مقاصد، عسکریت پسندی اور معاشرہ، بیرونی امداد کی درجہ بندی، امدادی اور ترقیاتی پالیسیاں اور کارپوریشنوں کا اندرونِ خانہ منافع جیسے موضوعات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش اور پاکستان کا بحران اور اشرافیہ کا شکار حکمت عملی اور پاکستان کی زرعی ترقی میں علاقائی تفریق شامل ہیں۔ پچھلی کتاب اور اس کتاب میں شامل تمام مضامین ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کے ترجمہ کردہ ہیں۔ کتاب پاکستانی اشرافیہ، فوج اور نوکر شاہی کا اجرا 10 فروری2014ء کو کراچی پریس کلب میں ہوا۔ توقع ہے کہ یہ کتاب سیاسیات اور عمرانیات کے طلبا و طالبات کے مطالعے اور ان کی سوچ کے دائرے کو وسیع کرنے کا سبب بنے گی۔ اس کے علاوہ ان تمام شہریوں کو انتہائی مفید معلومات فراہم کرتی ہے،  جو موجودہ صورتحال کے اسباب کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کتاب کی قیمت 300 روپے ہے، جو اس کی ضخامت کے لحاظ سے انتہائی مناسب ہے۔ یہ ملک کے تقریباً سبھی کتاب گھروں میں دستیاب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔