جنگ اور ڈپلومیسی

زمرد نقوی  اتوار 16 فروری 2014

امریکا نے توانائی، سلامتی، بنیادی ڈھانچے اور تعلیم کے شعبے میں پاکستان سے تعاون میں اضافہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں پاکستان خوش حال ہو گا۔ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے لیے موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اس کی مدد کریں گے۔ توانائی بحران کے حل کے لیے پاکستان کو ایک ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کی ہے۔ امریکی امداد سے خطے میں بننے والی طویل شاہراہوں کی بدولت آج پاکستان تجارت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دونوں ملک تعلیم کو اقتصادی ترقی کا روڈ میپ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے لیے فل برائٹ اسکالر شپ پروگرام شروع کیے ہیں جب کہ پاکستان نے کہا ہے کہ جمہوری حکومت امداد کے بجائے تجارت کا فروغ چاہتی ہے۔ امریکا یورپی طرز پر پاکستانی مصنوعات کو ترجیحی رسائی دے۔ افغانستان میں پائیدار امن کی کوششوں میں شریک ہیں‘ پاکستان کی قومی سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھا ہے۔ حکومت توانائی اور معیشت میں بہتری کے لیے پر عزم ہے۔ جمہوری حکومت کی تبدیلی سے تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں تاہم پاک بھارت تنازعات کے حل میں مسئلہ کشمیر کلیدی حیثیت رکھتا ہے جس کا کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل چاہتے ہیں۔

قابل ذکر بات ہے کہ یہ اسٹرٹیجک مذاکرات تین سال کے بعد بحال ہوئے ہیں۔ اسی سے پہلے پاک امریکا تعلقات شدید بحران کا شکار رہے جس کی وجوہات میں اسامہ بن لادن، ریمنڈ ڈیوس اور ملالہ کا حادثہ قابل ذکر ہیں۔ خاص طور پر اسامہ بن لادن کے حادثے نے پاک امریکا تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا۔ پاک افغان بارڈر پر ہونے والی سرگرمیوں خصوصاً نیٹو اور افغان نیشنل آرمی کی بعض کارروائیوں نے پاک امریکا تعلقات کو بند گلی میں پہنچا دیا۔ لیکن کئی سال کی کوششوں کے بعد سے یہ تعلقات بحال ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑائی سے لے کر عراق کویت ایران شام میں امریکی کردار شدید تنقید کا باعث رہا ہے حتیٰ کہ متعدد مواقع پر خود امریکی، برطانوی، یورپی عوام نے امریکی انتظامیہ کے ان انسانیت کش اقدامات کی مذمت لاکھوں کی تعداد میں احتجاجی مظاہروں کی شکل میں کی۔ جب کہ اسلامی ملکوں میں خاص طور پر وہ ممالک میں جو امریکی جارحیت کا نشانہ بنے‘ امریکا مخالف جذبات اپنے عروج پر پہنچ گئے۔

امریکا کے جارحانہ اقدام کے اثرات بہر حال مرتب ہوئے ہیں۔ جس کا اظہار حال ہی میں امریکی صدر اوبامہ نے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کیا۔ جس میں انھوں نے اعتراف کیا کہ ڈرون حملوں نے امریکی امیج کو نقصان پہنچایا ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے ڈرون حملوں کو محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اب امریکا جارحانہ اقدامات کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دے رہا ہے۔ بقول اوبامہ اب ہم ڈپلومیسی کو موقع دینا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلا مرحلہ جارحیت کا تھا جس کے ذریعے مقاصد حاصل کیے گئے۔ اب ڈپلومیسی اور دوستی کے ذریعے جن مقاصد کا حصول رہ گیا ہے وہ حاصل کیے جائیں گے۔ ملکوں کے درمیان دشمنی اور محاذ آرائی اپنے اپنے مقاصد کے لیے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ دوستی کا ہوتا ہے جو پہلے مرحلے سے زیادہ خطر ناک اور پر اثر ہوتا ہے۔ اس میں وہ چیزیں حاصل کر لی جاتی ہیں جو پہلے مرحلے میں نا ممکن تھیں۔ ماضی میں اس کی مثال امریکا چین دوستی اور امریکا روس تعلقات ہیں۔ جس نے وہاں کے رائج نظام کو سرمایہ دارانہ نظام میں تبدیل کر دیا۔ یہ امریکا کی بہت بڑی کامیابی تھی جس نے دوستی کے ذریعے ان ملکوں میں نقب لگائی اور ان ملکوں میں معاشی سیاسی سماجی سطح پر اپنے لیے بہت بڑے موثر طبقے بنا لیے۔

دوستی اور دشمنی ملکوں میں اپنے اپنے مفادات کے لیے حصول کے لیے ہوتی ہے جب تک دشمنی کی ضرورت ہوتی ہے دشمنی اختیار کی جاتی ہے اور جب اس کے ذریعے مقاصد کا حصول ممکن نہیں رہتا تو دوستی کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کا نام گاجر اور چھڑی پالیسی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ڈپلومیسی کرتے ہوئے انسانی خطرات کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ یعنی جو طریقہ کار چند افراد یا کسی گروہ کے لیے لاگو ہوتا ہے۔ وہی طریقہ کار ملکوں اور قوموں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ملک خانہ جنگی یا اندرونی انتشار کا شکار ہے۔ حکومتی سطح پر لوگوں کی قوت فیصلہ جواب دے چکی ہے تو عوام کو یہ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ ان ملک دشمن قوتوں کے خلاف ایکشن لینے سے موجودہ سے بھی بڑی تباہی مسلط ہو جائے گی۔ جب کہ اس کا فائدہ تخریبی قوتوں کو یہ ہوتا ہے کہ وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر مزید طاقتور ہو جاتی ہیں۔ یہاں بھی ڈپلومیسی ہی اپنا کام دکھا رہی ہوتی ہے اس انداز میں کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سے علیحدہ کرنا مشکل ہو جائے۔ ڈپلومیسی نام ہی اس کا ہے کہ جھوٹ اور سچ کو اس طرح خلط ملط کر دیا جائے کہ حقیقت کو پانا مشکل ہو جائے۔ ایک ہی وقت میں کئی طرح کی باتیں کرنا پھر ان باتوں سے پیچھے ہٹ جانا۔ یعنی کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔

یہی چیز ہمیں ایران اور شام کے معاملے میں بھی نظر آتی ہے۔ پہلے مرحلے میں ایران پر بالواسطہ اور بلا واسطہ جارحیت مسلط کی گئی۔ یہ مرحلہ کئی دہائیوں پر مشتمل تھا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ معاشی پابندیوں اور ناکہ بندی کا تھا۔ ان دونوں مرحلوں کے ذریعے اپنے مقاصد کو آگے بڑھایا گیا۔ دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے سے کم سخت نہیں تھا۔ دونوں مرحلے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ پہلے مرحلے نے دوسرے مرحلے کی راہ بنائی دوسرے نے تیسرے کی۔ مقصد سب کا ایک ہی تھا کہ اپنے حریف کو گھیر گھار کر ایسی جگہ لایا جائے جہاں پر اس سے اپنی زیادہ سے زیادہ شرائط منوا کر اپنی بالادستی اس طرح سے مسلط کی جائے کہ وہ بے بس ہو کر رہ جائے اس میں یہ بات قابل غور ہے کہ جب جارحیت کرنی تھی تو جارحیت کی گئی دوستی نہیں کی گئی تا کہ دشمن کو کمزوری کا پیغام نہ ملے۔ انسانی تاریخ میں ایسے بہت سے مرحلے آئے ہیں جب ڈپلومیسی کے ذریعے فتح کو شکست اور شکست کو فتح میں بدل دیا گیا۔ یہ ڈپلومیسی کی شاطرانہ چالوں کا کمال ہے کہ کامیابی ناکامی اور ناکامی کو کامیابی میں بدل دیا جاتا ہے۔ یہ قانون قدرت ہے کہ کوئی بھی شے مستقل بالذات نہیں ہوتی۔ عروج زوال میں زوال عروج میں اندھیرا روشنی میں اور روشنی اندھیرے میں‘ ایک وقت معین کے بعد ہر شے بدلنی ہوتی ہے۔ صرف اس وقت کا علم ہونا چاہیے جب آپ فیصلہ کن (وار) اقدام کر کے نتائج کو اپنی مرضی کی شکل دے سکیں اور سبقت آپ اپنے حریف سے چھین لیں کیونکہ آپ کا حریف وقت معین کے حوالے سے اندھیرے میں ہوتا ہے۔ اس طرح آپ اپنی سبقت کو طویل مدتی فتح میں بدل سکتے ہیں۔

ڈرون حملے اب کب ہوں گے؟ اس کا پتہ اپریل مئی میں چلے گا لیکن اس سے پہلے فروری کا آخر اور مارچ کا شروع بھی احتیاط  طلب وقت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔