ہم بھی وہاں موجود تھے

سعید پرویز  اتوار 16 فروری 2014

پانچواں کراچی لٹریچر فیسٹیول 7 فروری سے 9 فروری 2014 تین دن جاری رہا۔ کراچی شہر میں عین سمندر کے کنارے واقع ہوٹل میں گزشتہ پانچ سال سے ادبی میلا سجتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ملک کا بہت بڑا اشاعتی ادارہ ہے۔ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں اس ادارے کا پرنٹنگ پریس واقع ہے اور اسی وسیع و عریض عمارت میں ادارے کا دفتر بھی ہے۔ اس ادارے کی چھپی ہوئی خوبصورت دیدہ زیب کتابیں پوری دنیا میں مقبول ہیں اور بڑی تعداد میں ہندوستان پاکستان اور دیگر ممالک میں کتابوں کی ترسیل پورے سال جاری رہتی ہے۔ انگریزی ادب کے علاوہ اردو ادب کی منتخب کتابیں اس ادارے کے کریڈٹ پر ہیں، اتنے بڑے سیٹ اپ کو امینہ سید چلا رہی ہیں۔ جس کے لیے یقینا وہ زبردست خراج تحسین کی مستحق ہیں۔

میں اس بار پہلی مرتبہ اس ادبی میلے میں شریک ہوا اور دل باغ باغ ہوگیا۔ تین روزہ ادبی میلے میں 122 پروگرام پیش کیے گئے 224 خواتین و حضرات جن میں ادیب، شاعر، موسیقار، مصور، گلوکار، سازکار، صداکار، اداکار، رقاص، تجزیہ نگار، صحافی، کالم نویس، اینکر پرسنز شامل تھے نے حصہ لیا۔ چند معروف نام بھی لکھتا چلوں۔ مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی، عاصمہ جہانگیر، فیض صاحب کی بیٹی منیزہ، ضیا محی الدین، رقاصہ ناہید صدیقی، زاہدہ حنا، زہرہ نگاہ، احفاظ الرحمن، مجاہد بریلوی، لال بینڈ کے تیمور رحمان، امر جلیل، امجد اسلام امجد، انور شعور، اسد محمد خان، آصف فرخی، بشریٰ انصاری، فہمیدہ ریاض، غازی صلاح الدین، حمیدہ کھوڑو، حسینہ معین، صوری نورانی، انتظار حسین، جاوید جبار، کشور ناہید، مدیحہ گوہر، ملیحہ لودھی، ڈاکٹر مبارک علی، محمد احمد شاہ، پرویز ہود بھائی، رضا علی عابدی، سحر انصاری، شکیل (اداکار)، شیما کرمانی، شہزاد رائے، ڈاکٹر جعفر احمد۔ باقی نام بھی محترم و مکرم ہیں۔ ان سب کو شامل سمجھا جائے۔

مگر سارے نام لکھنا ممکن نہیں۔ ادبی میلے کی افتتاحی تقریب میں بہت زیادہ لوگ شامل تھے۔ یہ تقریب وسیع و عریض بنائے گئے پنڈال میں ہوئی اور اس کے خاص مقرر مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی تھے۔ جنھیں دیکھنے اور سننے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ تمام کرسیاں بھری ہوئی تھیں اور لوگ کھڑے تھے یا زمین پر بیٹھے تھے۔ راج موہن اپنے عظیم خانوادے کا نام اور کام لیے چل رہے ہیں۔ ان کی کتاب میلے کی مقبول ترین کتاب تھی۔ لوگ قطار بناکر ان سے کتاب پر اپنے لیے لکھواتے رہے۔ اس میلے کی مقبول ترین شخصیت بھی راج موہن گاندھی ہی تھے۔ یہ تعلق، یہ اظہار، یہ پیار، یہ عقیدت ان کے دادی جی کے لیے بھی بھرپور خراج عقیدت تھا۔ راج موہن جی نے بہت سی باتیں کیں، بہت سے سوالات کے جواب دیے ان کی کہی ہوئی ایک بات لکھ رہا ہوں۔ راج موہن گاندھی نے کہا ’’1948 میں باپو کو (مہاتما گاندھی) پاکستان آنا تھا، جہاں جناح صاحب سے ان کی ملاقات طے تھی، لیکن اس کام سے پہلے ہی گاندھی جی کو قتل کردیا گیا، اگر گاندھی جی اور جناح صاحب کی ملاقات ہوجاتی تو شاید ہندوستان اور پاکستان کے حالات مختلف ہوتے۔‘‘

ضیا محی الدین بڑے مشہور اداکار و صدا کار ہیں۔ ان کا شو بھی میلے کے سب سے بڑے پنڈال میں ہوا اور حسب معمول ان کے پروگرام میں بھی بہت زیادہ سامعین شریک تھے اور ضیا محی الدین ہمیشہ کی طرح اس روز بھی اپنے عمدہ لب و لہجے کے ساتھ چھائے ہوئے تھے۔ میلے کے پہلے روز عظیم شاعر فیض احمد فیض کا بھی ایک سیشن تھا۔ یہ پروگرام ایک ہال میں تھا۔ محمود جمال، واجد جواد اور فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی نے فیض کو یاد کیا۔ اس پروگرام کے پیش کار تھے باری میاں۔ یہ پروگرام بھی میلے کا کامیاب پروگرام تھا۔ اسی ہال میں میلے کے دوسرے روز شاعر عوام حبیب جالب کا پروگرام ہوا۔ جالب کے چاہنے والوں سے ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لوگ کھڑے ہوئے تھے اور بہت سے لوگ اسٹیج کے سامنے زمین پر بیٹھے تھے جن میں تاج حیدر اور منظور رضی بھی شامل تھے۔ جالب پر گفتگو کا آغاز عاصمہ جہانگیر نے کیا۔ اپنے بچپنے کے دنوں کی یادیں جالب کے حوالے سے تازہ کیں۔ عارفہ سیدہ زہرہ نے بات کی۔ لال بینڈ کے تیمور رحمان نے جالب پر اپنی بنائی ہوئی ڈاکومنٹری پیش کی۔ فہمیدہ ریاض نے جالب پر کہی اپنی نظم سنائی۔ اس پروگرام میں جالب صاحب کی بیٹی طاہرہ نے دستور نظم ترنم سے سناکر تقریب کو چار چاند لگا دیے۔ پروگرام کو مجاہد بریلوی نے پیش کیا۔

میلے میں ایک کتب بازار بھی بنایا گیا تھا جہاں اردو اور انگریزی ادب پر مشتمل ہزاروں کتابیں فروخت کے لیے رکھی گئی تھیں۔ سیاست، ناول، افسانہ، شاعری اور دیگر موضوعات پر عمدہ گیٹ اپ اور چھپائی کے اعلیٰ معیار کے ساتھ نامور ادیبوں، شاعروں، ناول نگاروں، افسانہ نگاروں کی کتابیں لوگ خرید رہے تھے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے علاوہ سنگ میل، مکتبہ دانیال، ویلکم بک پورٹ، فضلی سنز، توکل اکیڈمی سمیت بہت سے اداروں نے اپنے اسٹال سجا رکھے تھے۔ اس کتب بازار میں بھی خوب رونق رہی اور میلے کے تینوں دن یہاں کھوے سے کھوا چھلتا رہا۔

میلے کے پارکنگ ایریا میں NAPA والوں نے اپنا پنڈال بنا رکھا تھا۔ جہاں نئے اداکار لڑکے لڑکیاں اسٹریٹ ڈرامے پیش کر رہے تھے۔ میں ادھر بھی گیا۔ پنڈال میں داخل ہوتے ہی ایک ہاتھ بلند ہوا میں نے ادھر دیکھا۔ یہ جسٹس رانا بھگوان داس تھے جو مجھے اشارے سے اپنے پاس بلا رہے تھے۔ میں آگے بڑھا اور ان کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا۔ پھر اگلی صف میں بیٹھے امجد اسلام امجد بھی مجھے نظر آئے۔ ان دونوں شخصیات کو NAPA کے نوجوان اداکاروں کے لیے شریک دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔ NAPA کے لڑکے لڑکیاں مختلف جانوروں کا روپ دھارے بلا اجازت دوسرے اداروں کی کتب غیر قانونی طور پر شایع کرنے والوں کے خلاف ایک ٹیبلو پیش کر رہے تھے۔

میلے کے آخری دن کراچی میں موسم کے تیور کچھ تیکھے ہوچلے تھے۔ سرد ہوائیں کوئٹہ سے آچکی تھیں، میں نے گرم چادر اور گرم پشتو ٹوپی ساتھ لے لی تھی۔ میلے میں پہنچا تو سمندر سے ٹکرا کر آنے والی ہواؤں سے سامنا ہوا۔ مگر میری گرم چادر اور گرم پشتو ٹوپی سرد ہواؤں کے خلاف مضبوطی سے ڈٹی ہوئی تھی۔ تیسرے دن اختتامی سیشن بہت بھرپور ہوا۔ میلے کے سب سے بڑے پنڈال میں شام ڈھلے لوگ بیٹھے تھے بہت سے خالی کرسیوں کی تلاش میں نظر آرہے تھے۔ مگر صاحب کرسی اس روز اچھے اچھوں کے ہاتھ نہیں لگ رہی تھی۔ پنڈال میں کافی پیچھے انتظار حسین مسعود اشعر کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان سے دس قطار پیچھے جاوید جبار بیٹھے تھے۔ لڑکے، لڑکیاں سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔اختتامی تقریب کی تقاریر امینہ سید، آصف فرخی، کمیلا شمسی، رضا علی عابدی پر مشتمل تھیں۔ یہ سلسلہ ختم ہوا تو نیا چلا۔ ناہید صدیقی رقص فرمائیں گی۔ اوہو! توبہ جو لوگ پہلے سے کرسیوں پر جمے بیٹھے ہیں معاملہ یوں ہے۔ رات بلکہ سرد رات اور ناہید صدیقی کا رقص۔ نقش بن رہے تھے۔ مجمع خوب داد دے رہا تھا۔ اور پھر لال بینڈ کی شکل پر میلے کی آخری پرفارمنس شروع ہوئی۔ لال بینڈ کے تیمور رحمان فیض اور جالب کا کلام گا رہے تھے۔ اور مجمع بھی پوری طرح شریک تھا۔ یوں یہ یادگار پانچواں کراچی لٹریچر فیسٹیول اپنے اختتام کو پہنچا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔