موجودہ حالات کی ذمے دار اپوزیشن ہے؟

سالار سلیمان  جمعرات 3 فروری 2022
حکومت تو کمزور ہے ہی لیکن اپوزیشن بالکل ہی گئی گزری ہے۔ (فوٹو: فائل)

حکومت تو کمزور ہے ہی لیکن اپوزیشن بالکل ہی گئی گزری ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کے موجودہ حالات دن بہ دن خراب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسی خبر سامنے آ جاتی ہے کہ کلیجہ چیر کر رکھ دیتی ہے۔ پورا دن افسوس اور تاسف میں گزرتا ہے اور پھر چند دن کے بعد یہ سائیکل دوبارہ ہوتا ہے۔

حکومت کی بیڈ گورننس اپنی معراج کو پار کرچکی ہے، ایڈمنسٹریشن مائنس میں ہے، کریشن کفن پھاڑ کر دہائی کی بلند ترین سطح پر ہے، جس کا ثبوت ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ ہے۔ اقربا پروری نئے ریکارڈز بنا رہی ہے اور رہی سہی کسر آئی ایم ایف کے ڈنڈے کے باعث ہونے والی مہنگائی نے پوری کردی ہے۔

کیا کسی نے نوٹ کیا ہے کہ معاشرتی ڈپریشن کن حدوں کو کراس کرگیا ہے اور کیوں پاکستان میں خودکشی کے کیسز کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہے؟ کیوں پاکستان میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے؟ کیوں پاکستان میں اسکول جانے کی عمر میں مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد آئے دن بڑھ رہی ہے؟ ہم جیسے دو ٹکے کے صحافی کسی بڑے آدمی سے رابطہ کریں تو بے بسی سے جواب آتا ہے کہ آپ کے مطلوبہ نمبر سے جواب موصول نہیں ہورہا، برائے مہربانی جڑواں شہروں میں رابطہ کیجئے اور جب وہاں رابطہ بحال ہوتا ہے تو شکایتیں شروع ہوجاتی ہیں تو یاد کروانا پڑتا ہے کہ سر، حکومت تو آپ لوگوں کی ہے اور اُن کو بھی یقین نہیں آتا ہے کہ واقعی ہماری ہی حکومت ہے۔

اگر کسی اور دور حکومت میں کسی حکومت کی ایسی پرفارمنس ہوتی تو اب تک وہ حکومت کب کی گھر جا چکی ہوتی لیکن چونکہ اس حکومت پر دست شفقت ہے تو لہٰذا یہ حکومت ابھی تک قائم و دائم ہے اور میرے اندازے کے مطابق شاید وزیراعظم تو بدلا جائے لیکن حکومت یہی اپنی مدت پوری کرے گی، جیسا کہ مشرف کے دور میں ق لیگ نے کی، پھر زرداری کے ساتھ پیپلز پارٹی نے کی اور پھر ممنون حسین کے ساتھ ن لیگ نے کی اور اب عارف علوی کے ساتھ یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ کسی کا دل کرے تو صدور کے نام بدل کر وہاں جس مرضی کا نام اپنی ذمے داری پر لگا سکتا ہے۔

ایسی صورتحال میں اگر ہم گہرائی سے تجزیہ کریں تو یہ نظر آتا ہے کہ موجودہ حالات کی براہ راست ذمے دار اپوزیشن بھی ہے۔ حکومت تو کمزور ہے ہی لیکن اپوزیشن بالکل ہی گئی گزری ہے۔ قومی اسمبلی میں محسوس ہوتا ہے کہ میاں محمد شہباز شریف وفاقی وزیر برائے اپوزیشن ہیں اور سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کے پاس شاید وزیر مملکت برائے اپوزیشن امور کی ذمے داری ہے۔ مطلب، ان دونوں کی اب تک کی کارکردگی اُٹھا کر چیک کرلیجئے؟ اب یہاں کوئی سیانہ پی ڈی ایم کا حوالہ نہ دے، وہ مولانا فضل الرحمان کا کندھا ستعمال کرکے اسمبلی معاملات کو طے کرنے کےلیے بنائی گئی تھی اور اس کے بعد سے اس کی تدفین ہوچکی ہے اور مولانا پی ڈی ایم کی قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر یک ٹک اس کو دیکھے جارہے ہیں۔

سینیٹ میں اپوزیشن کے نمبرز زیادہ ہیں، اسی لیے یوسف رضا گیلانی منتخب بھی ہوئے اور پھر اپوزیشن لیڈر بنائے گئے۔ اب مجھے کوئی سمجھائے کہ کیسے ممکن ہے کہ نمبرز جس طرف زیادہ ہوں، وہ اپوزیشن میں ہو اور جس کے نمبرز کم ہو، سینیٹ میں اس کا چیئرمین سینیٹ ہو۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جہاں نظر آتا ہے کہ حکومت پھنس گئی ہے اور اب اس کے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو ایوانوں سے اس کو آرام سے بیل آؤٹ پیکیج پلان مل جاتا ہے۔ کیوں؟ حکومت کیسے اپنی مرضی کا بجٹ اور ہر متنازع بل سہولت سے منظور کروا لیتی ہے؟

ابھی کی مثال لیجئے کہ کیسے پاکستان کو ہاتھ باندھ کر آئی ایم ایف کے سامنے ڈالا جارہا تھا اور تاریخ کے اہم ترین موقع پر یوسف رضا گیلانی بھی غائب، جے یو آئی اور ن لیگ کے اہم سینیٹرز بھی میدان سے غیر حاضر اور حکومت نے اقلیت کے باوجود سینیٹ سے ایک ووٹ سے بل منظور کروا لیا۔ کیوں؟ کیسے؟ قومی اسمبلی میں گورنمنٹ ریسکیو کے فرائض میاں شہباز شریف سر انجام دیتے ہیں اور سینیٹ میں یہ ذمے داری یوسف گیلانی کے کاندھوں پر ہے۔

یہ بات کہ اپوزیشن میں گروپنگ ہے جس سے حکومت فائدہ اٹھاتی ہے تو کیا حکومت میں گروپنگ نہیں ہے؟ اپوزیشن کیوں اُس سے فائدہ نہیں اٹھا پاتی یا پھر اپوزیشن میں وہ دم ہی نہیں ہے کہ وہ یہ فائدہ اُٹھا سکے؟
اپوزیشن کیوں پولیٹیکل مینجمنٹ کے میدان میں ٹوٹل فلاپ ہے؟ مجھے کوئی یہ سمجھا دے کہ ایک حکومت جو اپنے قلعے میں بلدیاتی انتخابات بری طرح ہار گئی ہو، جس کے اراکین اسمبلی لندن میں لائنیں سیدھی کر رہے ہوں تو وہ کیسے ایوانوں میں ہر اہم موقع پر جیت جاتی ہے؟ اپوزیشن لیڈران اس بات کا جواب دیں کہ کیوں عددی برتری ہونے کے باوجود بھی کوئی ایک بھی متنازع بل رک نہیں سکا؟ عوام زندہ درگور ہورہے ہیں تو اپوزیشن نے ابھی تک کیوں کوئی بڑا احتجاج نہیں کیا؟ عوامی مسائل پر اپوزیشن کیوں خاموش رہتی ہے؟ کتنے بل عوامی مسائل پر اسمبلی میں پیش کیے؟ کتنی متنازع قانون سازیاں اپوزیشن نے روکی ہیں؟ ہے کوئی جواب؟

موجودہ حالات کی ذمے دار صرف حکومت ہی نہیں بلکہ اپوزیشن بھی ہے۔ وہ کسی بھی طرح سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ جب یہ خبر آتی ہے کہ اپوزیشن کے 14 سے 15 اراکین حکومت کے ساتھ ہیں اور پھر جب ہم حقائق دیکھتے ہیں تو اس خبر کی صداقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ 14 سے 15 اراکین کون ہیں اور کیوں دونوں ایوانوں میں موجود اپوزیشن لیڈران خاموش ہیں؟ کیا کہیں سب ہی آپس میں ملے ہوئے تو نہیں ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔