- ایران میں دہشت گردوں کے حملے سے تین سیکیورٹی اہلکار شہید
- کراچی ایئرپورٹ پر بحرین جانے والے مسافر سے 1 کلوگرام سے زائد ہیروئن برآمد
- لانڈھی اسپتال چورنگی کے قریب ڈاکو کی فائرنگ سے پولیس اہلکار زخمی
- سینیٹ اجلاس جھگڑوں کی نذر، حکومتی ارکان کا واک آؤٹ
- پاکستان نے یورپی بینک سے بھاری شرح سود پر قرض حاصل کرلیا
- قومی ایئر لائن پی آئی اے کی برطانیہ اور یورپی ممالک میں بحالی کا معاملہ
- گنڈا پور نے فیض حمید کیس سے بچاؤ کیلیے تقریر کی ، واوڈا
- وٹامن تھراپی و جلد کی چمک کا غیر سائنسی علاج منافع بخش ’’کاروبار‘‘
- لاہور میں گرد آلود ہوائیں چلنے سے موسم خوشگوار، آج رات بارش کا امکان
- وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے افغانستان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا
- امریکا کے 3 شہریوں کو کانگو میں حکومت کے خلاف بغاوت پر سزائے موت
- لاہور؛ جوہر ٹاؤن میں کار ڈرائیور نے رکشہ ڈرائیور کو کچل دیا
- لاہور؛ شالیمار اسپتال میں ڈاکٹرز کی مبینہ غفلت کے باعث مریض جاں بحق
- کرکٹر سرفراز احمد کے برادرِ نسبتی کی حالت تشویشناک، اسپتال میں داخل
- کراچی: سائٹ سپر ہائی وے سے مبینہ مقابلے میں ایک ملزم گرفتار
- لانڈھی پولیس نے مبینہ مقابلے میں ایک ڈاکو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا
- کراچی: دیوار کا ملبہ گرنے سے نو عمر لڑکا جاں بحق
- ایکس اکاؤنٹ پوسٹ پر عمران خان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ درج
- لاہور؛ سوتیلی ماں کے مبینہ تشدد سے 8 سالہ بچی جاں بحق
- ایک ہی گھر سے چوتھا جنازہ، وادی نیلم حادثے میں زخمی خاتون انتقال کرگئیں
گال کے اندر چپکائے جانے والے انسولین اسٹیکر
پیرس: وہ دن دور نہیں جب ذیابیطس کے مریض نسوار کی طرح گال کے اندر اسٹیکر نما پیوند لگا کر انسولین کی مناسب مقدار بدن کے اندر شامل کرکے خون میں گلوکوز کنٹرول کرسکیں گے۔
فی الحال انسولین کی خوراک ٹیکوں یا پمپ سے جسم میں داخل کی جاتی ہے۔ لیکن اب فرانس کی یونیورسٹی آف لیلے کی پروفیسر سبینے زیونیرائٹس اور دیگر ممالک کے ساتھیوں نے ایک تجرباتی پیوند بنایا ہے۔ اس میں انسولین دوا کے طور پر شامل ہے اور گال کے اندر چپک کر خون میں انسولین داخل کرسکتی ہے۔
یہ نرم پیوند تین اشیا پر مشتمل ہے۔ ایک تو اسے پولی ایکریلک ایسڈ نامی پالیمر کے نینوفائبر سےبنایا گیا ہے۔ پھر اس میں بی ٹا سائیکلو ڈیکسٹرن سالمہ یعنی مالیکیول ملایا گیا ہے اور آخر میں گرافین آکسائیڈ کی کچھ مقدار شامل کی گئی ہے۔
اگلے مرحلے میں اس کے چھوٹے ٹکڑوں کو انسولین محلول میں تین گھنٹے تک ڈبویا گیا۔ اس کے بعد انہیں خنزیروں کے گال کے اندر موجود کھال کی تہوں پر لگایا گیا۔ انفراریڈ لیزر سے انہیں 50 درجے سینٹی گریڈ تک دس منٹ تک گرم کیا گیا۔
سائنسدانوں نے دیکھا کہ انسولین کا اخراج ہوا اور وہ جلد کے اندر جذب ہونے لگے۔ اس کے بعد تین خنزیر ایسے لئے گئے جو ذیابیطس کے مریض تھے۔ پھر پیوند کو بیرونی طور پر دس منٹ تک گرم کیا گیا اور وہ انسولین خارج کرنے لگے۔ ہرجانور کو دس دس منٹ تک پیوند لگایا گیا۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ فوری طور پر ان کے خون میں شکر کی مقدار کم ہونے لگی اس طرح صرف 20 منٹ میں انسولین کی پوری خوراک جسم کے اندر پہنچ گئی۔
گال کے اندر لگائے جانے والے اسٹیکر سے جلد پر کوئی خراش یا منفی اثر نہ ہوا۔ اسی طرح کے فرضی پیوند چھ انسانوں کو دو گھنٹے تک لگائے گئے تو ان کے اندر کوئی منفی اثر نہ ہوا۔
اگلے مرحلے میں منہ کے اندر انسولین پیوند نظام کی مزید آزمائش کی جائے گی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک اسٹیکر میں بار بار انسولین بھری جاسکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔