ایج ٹیمپرنگ

محمد مشتاق ایم اے  جمعـء 4 فروری 2022
ملازمت یا دیگر فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنی عمر میں تبدیلی کرائی جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ملازمت یا دیگر فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنی عمر میں تبدیلی کرائی جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایج ٹیمپرنگ کا اگر ہم اپنی زبان میں ترجمہ کرنا چاہیں تو اسے عمر چھپائی کہا جاسکتا ہے۔ اپنی عمر چھپانے کا مرض عام طور پر خواتین کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، جس میں کسی حد تک صداقت کا پہلو بھی موجود ہے۔ خاص طور پر اگر خواتین کا تعلق شوبز انڈسٹری سے ہو تو یہ مرض تھوڑا اور بڑھ جاتا ہے اور اس حوالے سے خواتین جب اپنی سالگرہ مناتی ہیں تو صرف مہینہ اور تاریخ ہی منظر عام پر لائی جاتی ہے اور اپنے برتھ ڈے پر سال کے ہندسے کو ایسے باہر پھینک دیا جاتا ہے جیسے دودھ میں سے مکھی۔

ٹیمپرنگ کا لفظ ہم نے اپنی زندگی میں پہلی بار ’’بال ٹیمپرنگ‘‘ کے حوالے سے سنا تھا جو کرکٹ کے ساتھ لگاؤ کی بدولت ہمارے پلے پڑا تھا کہ کس طرح بال ٹیمپرنگ سے مخالف ٹیم کی بیٹنگ کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ بعد میں یہ لفظ مختلف حوالوں سے سامنے آیا اور ہماری سماعتوں نے ’’پیپر ٹیمپرنگ‘‘، ’’رزلٹ ٹیمپرنگ‘‘، ’’ریلیشن ٹیمپرنگ‘‘ اور ’’ایج ٹیمپرنگ‘‘ جیسے قیمتی الفاظ سے اپنے آپ کو مستفید کیا۔

چند دن پہلے ایک اخبار میں خبر پڑھی جس کا ٹائٹل تھا ’’ایج ٹیمپرنگ کے اصل کرداروں کو سامنے لایا جائے‘‘ اس کے بعد خبر کے علاوہ سے یہ لکھا تھا کہ ’’پاکستان کرکٹ بورڈ نے زائد العمر کھلاڑیوں کے وڈیو شواہد کی بنیاد پر انڈر تھرٹین اور انڈر سکسٹین ٹورنامنٹ ملتوی کردیے۔ ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس سینٹر ندیم خان کے مطابق زائد العمر کھلاڑیوں کو نظام میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھانے اور مستحق کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔

اس بات کا سادہ سا مطلب یہ بنتا ہے کہ زائدالعمر کھلاڑیوں نے انڈر-13 اور انڈر-16 ٹورنامنٹ میں شامل ہونے کےلیے اپنی عمریں کم کروائیں، کیونکہ خود سے تو عمر کم نہیں ہوسکتی بلکہ پاکستان میں رائج الوقت طریقوں میں سے کسی ایک کے ذریعے ان کھلاڑیوں نے اپنی کم عم کی تصدیق بورڈ کے سامنے پیش کرنے کے بعد ہی ان کو ان ٹورنامنٹ میں شامل کیا ہوگا۔ اب اس میں ایک طرف تو زائدالعمر کھلاڑیوں کی طرف سے بے ایمانی اور کرپشن کا عنصر شامل ہو اور دوسرے طرف جو کھلاڑی ان ٹورنامنٹ میں شرکت کے حقدار تھے وہ اس سے محروم ہوگئے اور تیسری بات جس ادارے یا لوگوں کے نیٹ ورک نے زائد العمر کھلاڑیوں کی عمریں ان کو پیش کی گئی کسی بھی کرپشن کے عوض کم کیں ان کی دیدہ دلیری اور بے ایمانی میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

اب یہاں پر خواتین کےلیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اگر وہ عمر چھپاتی ہیں تو مرد بھی اپنی عمر اصل عمر سے ضرورت کے تحت کم یا زیادہ کراتے رہتے ہیں اور ظاہر ہے یہ کام ایسا نہیں ہے کہ گھر بیٹھے ہو جائے، بلکہ اس کےلیے متعلقہ اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کی مدد لینا پڑتی ہے اور یہ مدد حرام کے ان ٹکوں کی خاطر کی جاتی ہے جو کبھی کسی انسان کے پاس ہمیشہ نہیں رہتے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ یہ کرپشن، سفارش اور اقربا پروری کا کلچر ہمارے معاشرے کی رگوں میں اس طرح سرائیت کرچکا ہے کہ اب اس حوالے سے بری سے بری اور بڑی سے بڑی خبر بھی ہمارے دل اور دماغ کو کچوکے نہیں لگاتی۔ ہم ہر برائی کو بس وقت کی ضرورت سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے اب برائی کسی کا ضمیر نہیں جھنجھوڑتی اور اس نظام میں ہم سب اپنے اپنے مفاد کو سمیٹ کر چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ باقی ہمارا معاشرہ اور ملک اللہ کی حفاظت میں ہے، اسے کچھ نہیں ہوگا۔

یہ ایج ٹیمپرنگ کا مرض کوئی چھوٹی بات نہیں بلکہ یہ کینسر جیسے موذی مرض کے ہم پلہ ہے، فرق صرف یہ ہے ہمیں جسمانی بیماریاں تو جابجا نظر آتی ہیں کہ ان سے اسپتال بھرے پڑے ہیں لیکن یہ روحانی اور اخلاقی بیماریاں اپنے اوپر کہیں شرافت اور کہیں دبدبے کا خول چڑھا کر ہمارے معاشرے اور ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں اور یہاں کسی کو اس بات کی پرواہ ہی نہیں ہے۔

جن لوگوں کی عمر زیادہ ہوتی ہے وہ عمر کم کروا کر کسی ٹورنامنٹ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ جو پاکستانی بیرون ممالک جانا چاہتے ہیں بعض اوقات ان کی عمر بھی اس ملازمت کے حساب سے کم یا زیادہ ہوتی ہے تو وہ بھی اپنی عمر میں ضرورت کے مطابق تبدیلی کرا لیتے ہیں۔ ملک میں کہیں ملازمت کےلیے بھی اپنی عمر کو درکار مدت کے دائرے میں لانے کےلیے یہ سہولت حاصل کی جاتی ہے۔ کہیں پنشن کے حصول اور کہیں کسی بھی اسکیم سے فائدہ اٹھانے کےلیے عمر کو دو چار سال اوپر نیچے کرا لینا کسی کےلیے کوئی جوئے شیر لانے کے برابر نہیں ہے، بلکہ کئی لوگ ایسے ہیں جو دو دو شناختی کارڈ اٹھا کر دندناتے پھرتے ہیں۔

الغرض شاید ہی کوئی ایسا محکمہ ہوں جہاں عوام کو اپنی ضرورت کے مطابق سہولت دستیاب نہ ہوں، بس آپ کی جیب بھاری ہونی چاہیے یا پھر آپ کی سپورٹ میں کوئی ایسا دبدبہ ہو جسے کوئی نظر انداز نہ کرسکے اور یا پھر آپ کا کوئی قریبی بندہ اس محکمے میں کام کرتا ہو۔

کوئی تو ہو جو ان کی لگام کھینچے، کوئی تو ہو جو ملک سے ان ناسور جیسے امراض کا قلع قمع کرے اور کوئی تو ہو جو ملک کو درست سمت کی پٹڑی پر ڈالے۔

اپنی بات کے اختتام سے پہلے ’’ایج ٹیمپرنگ‘‘ کی چھوٹی سی مثال آپ کی نذر کرتا ہوں جس کو ہلکے پھلکے انداز سے لے کر انجوائے کیجئے۔ ایک خاتون کو اپنی طبیعت بوجھل محسوس ہوئی تو اسپتال جا پہنچیں۔ چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے انجکشن تجویز کیا اور لگانے سے پہلے خاتون سے اس کی عمر پوچھی تو اس نے 24 سال بتائی۔ ڈاکٹر نے کہا محترمہ دیکھ لیں میں نے آپ کی عمر کے حساب سے اس انجکشن میں دوا بھرنی ہے تاکہ کوئی نقصان نہ ہو اس پر وہ خاتون بولی میری عمر 28 سال ہے۔ ڈاکٹر نے پھر کہا کہ ایک بار پھر سوچ لیں کہ یہ انجکشن خطرناک ہے اور اگر دوا کی مقدار میں کمی بیشی ہوگئی تو جان کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس پر وہ خاتون بولیں ڈاکٹر صاحب آخری بار بتا رہی ہوں کہ میری عمر 34 سال ہے اور اب اگر میری جان بھی چلی جائے میں ایک سال بھی نہیں بڑھاؤں گی۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم حکومتی حوالے سے شخصیت پرستی کی بیماری میں مبتلا ہیں، یہی وجہ ہے کہ شخصیات کا اثرورسوخ بڑھتا جاتا ہے اور ادارے بھی ان کے دبدبے کو برداشت نہیں کرپاتے اور اس طر ح اداروں میں جی حضوری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے کہ کس کی مجال ہے بادشاہ سلامت کی بے ادبی کرے۔ اگر اس ملک میں شخصیات کے بجائے اداروں کو مضبوط کرنے پر توجہ دی جاتی تو ہر کام ایک طے شدہ ضابطے کے مطابق سرانجام پاتا اور حق دار کو حق ملتا۔ لیکن ابھی ہمیں شفافیت اور میرٹ کے اس نظام تک پہنچنے کےلیے نہ جانے کتنے پاپڑ بیلنے ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔