سرحد پار جمہوریت کی چمکتی دمکتی کہکشاں

اسلم خان  پير 17 فروری 2014
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

سرحد پار کاروباری طبقے اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ نے جمہوریت کا رخ روشن دھندلا کر کے رکھ دیا تھا، صنعتی خاندانوں نے بھارتی پارلیمان‘ لوک سبھا کوکٹھ پتلی بنایا ہوا تھا۔ قانون سازی کا عمل بازیچہ اطفال بن گیا تھا جس کا واحد مقصد دولت گری کے کھلاڑیوں کو ہر ممکن سہولیات مہیا کرنا تھا۔ آئین کے تقدس کی آڑ میں اس دستور کو پامال کیا جا رہا تھا، صنعت کار اور سیاستدان مل کر بے ایمانی اور رشوت ستانی کا کھیل کھل کر کھیل رہے تھے۔ پارلیمان، دولت کے اس گندے کھیل میں لونڈی کا کردار ادا کر رہی تھی۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی تھی کہ  ارب پتی سرمایہ کار مکیش امبانی ڈنکے کی چوٹ پر دعویٰ کرتا تھا کہ حکمران کانگریس میرے لیے دکان کی طرح ہے جہاں سے کوئی بھی من پسند چیز قیمت دے کر خریدی جا سکتی ہے۔ ہندو قوم پرستی کی دعویٰ دار بی جے پی اس کی طفیلی بنی ہوئی تھی کہ وزارت عظمیٰ کے نامزد امیدوار نریندر مودی کی مہنگی انتخابی مہم کا خرچ بھی یہی صنعت کار اور سرمایہ دار اٹھا رہے تھے۔ چہار سو گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے، بھارتی جمہوریت کا مستقبل تاریک ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ اچانک افق پر ایک روشنی چمکی اور بتدریج اس اجالے نے تاریکی کو پسپا کرنا شروع کیا۔

نئی دہلی کے ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 28 نشستیں جیت کر سیاسی پنڈتوں کو چونکا دیا۔ یہ تھے آرویندر کجریوال‘ انکم ٹیکس کے سابق افسر‘ بابے انا ہزارے کے بازوئے شمشیر زن۔ جنہوں نے پارلیمان کے باہر کالے دھندے اور گندی دولت بازی کے خلاف یدھ میں عوام کو شامل کرنے کا انقلابی فیصلہ کر کے سب کو ششدر کر دیا تھا۔ 28 دسمبر2013 ء کو حلف اٹھانے کے بعد کانگریس نے حکومت سازی میں عام آدمی پارٹی کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا مقصد جمہور کی طاقتوں سے مل کر احتساب کے نعروں کا سحر پاش پاش کرنا تھا لیکن جب ازلی دشمن بی جے پی اور کانگریس نے انسداد رشوت ستانی کے قانون کی منظوری کے خلاف متحد ہو کر مورچہ بندی کر لی تو کجریوال نے اعلان کیا کہ اگر انسداد رشوت ستانی کے قانون کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو ہم واپس عوام کی عدالت میں جائیں گے، میں مستعفی ہو جاؤں گا۔ جب عام آدمی پارٹی کو ریاستی اسمبلی میں لوک پال بل پیش کرنے سے روکا گیا تو کجریوال اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور ان کے ارکان نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفے دے دیے۔ اب نئی دہلی سرکار کو مرکز کے سپرد کر دیا گیا۔ کجریوال نے فاتحانہ شکوہ کے ساتھ عوامی عدالت میں استعفیٰ پیش کرکے جشن انکار وزارت کی بھولی بسری یاد تازہ کر دی ہے جو بزرگ مسلم لیگی سیاستدان احمد سعید کرمانی نے منایا تھا، وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی ڈاکٹر آصف کرمانی کے والد گرامی احمد سعید کرمانی ماضی کے نامور مسلم لیگی رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔

کجریوال نے سیاسی بساط الٹ کر رکھ دی ہے اور مئی میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات میں نریندر مودی کی واضح کامیابی کے دعوؤں کو ہوا میں اڑا کر رکھ دیا ہے۔  بھارت کے سیاسی منظرنامے پر نئی کہکہشاں نمودار ہورہی ہے، افق پر نیا سویرا طلوع ہو رہا ہے ۔

شعلہ بیان مقرر عہد قدیم کے پرشکوہ داستان گو کی طرح 49 دن کے اقتدار اور ایوان اقتدار کی سازشوں کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں ’’دوستو دو ماہ بعد ہم دوبارہ اسی مقام پر کھڑے ہیں۔ ہم نے ریاستی انتخابات میں کامیابی کا وعدہ کیا تھا کہ حکومت سازی کے لیے کانگریس یا بی جے پی سے مدد نہیں لیں گے۔ ہم 28 نشستیں  جیتے تھے، عوام نے ہمیں حکومت بنانے اور خدمت کا جوہر دکھانے کے لیے کہا،ہمارا سب سے بڑا وعدہ تھا  کہ بے ایمانی اور رشوت ستانی کے خلاف قانون بنائیں گے‘ جین لوک پال بل (Jan lok Pal bill) منظور کرائیں گے۔جب ہم نے یہ قانون اسمبلی میں منظوری کے لیے پاس کرنے کی کوشش کی تو ازلی دشمن کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو گئے۔ ایسا ہندوستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ صرف اس لیے مکیش امبانی کے خلاف تین دن پہلے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اسی طرح ویرا پامولی کے خلاف بھی مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ مکیش امبانی کو کون نہیں جانتا یہ شخص گزشتہ دس سال سے سارے ملک کو چلا رہا ہے، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ کانگریس میری دکان ہے جو چاہوں جب چاہوں خرید لوں۔ اب ایک سال سے اس نے مودی جی کو بھی خرید لیا تھا۔بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی، اب وہ ہیلی کاپٹروں پر انتخابی مہم چلا رہے ہیں، یہ ساری دولت اور خرچہ پانی مکیش امبانی دے رہا ہے ۔

دوستو! 28ستمبر 2013 سے آج تک میں اور ہمارے 7وزراء ٹھیک طریقے سے سو بھی نہیں سکے۔ ہم نے دن رات ایک کرکے دہلی کے عوام کی مقدور بھر خدمت کرنے کی کوشش کی۔ دوستو جو کچھ کل اسمبلی میں ہوا اس پر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اسمبلی کا تقدس پامال کیا گیا، مرچوں کا سپرے کیا گیا۔ میرا مائیکرو فون توڑ دیا گیا، یہ وہی لوگ ہیں جو زبانی کلامی بڑے دعوے کرتے ہیں، پارلیمان کو معبد قرار دیتے تھے، نہایت بے شرمی سے اسی مسجد‘ اسی مندر کی حرمت کو پامال کر رہے ہیں۔

ہم نے بدعنوانی کے خلاف قانون منظور کرانا چاہا، انھوں نے اسے غیر آئینی قرار دیا۔ بے ایمان مولی اور مکیش امبانی کے خلاف مقدمات درج کرانے کو بھی انھوں نے غیر آئینی قرار دیا۔ ساری قوم کا سر ندامت سے جھک گیا ہے۔ میں نے آئین کو اچھی طرح پڑھا ہوا ہے، اس میں تو کہیں نہیں لکھا کہ بدعنوانی کے خلاف قانون بنانا غیر آئینی ہے میں پوچھتا ہوں کہ کیا مرکزی سرکار برطانوی سامراج ہے اور لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ وائسرائے ہیں۔ بدعنوان اور بے ایمانی کے خلاف جنگ میں ہم کسی کی نہیں سنیں گے آئین پر چلیں گے اس راہ میں سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے قوم نے آزادی کی جادوئی مہک کو پا لیا ہے اب ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ہماری کوئی اوقات نہیں ہم بہت معمولی لوگ ہیں۔ ہم مالک کائنات سے مدد مانگتے ہیں وہ ہمیں حوصلے عطا فرمائے اور بھارت دیش کے لیے ہماری جان کی قربانی قبول کرے۔

حرف آخر گزارش یہ ہے کہ کجریوال کی تقریر انٹرنیٹ پر سنی جا سکتی ہے، سیاسی شعور رکھنے والے طلبا اور متحارب جماعتوں میں تقسیم ہمارے سیاسی کارکنوں کو یہ تقریر لازم سننی چاہیے۔ لہجے کی سچائی اور غریبوں کے لیے والہانہ محبت کی خوشبو صرف دیکھنے اور سننے سے ہی محسوس کی جا سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔