افکار پریشاں

رفیع الزمان زبیری  پير 17 فروری 2014

اکتوبر 1958 میں جب ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو ایک ہیبت سی چھا گئی۔ سیاست داں احتساب کے اور صحافی گرفتاریوں کے ڈر سے دبک کر بیٹھ گئے۔ وکلا صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔ کسی میں ہمت نہ تھی وہ یہ سوال کرے کہ مارشل لا کیوں لگایا گیا ہے اور معاشرے پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ سارے ملک میں ایک گمبھیر خاموشی طاری ہوگئی۔ اس سناٹے میں وہ پہلی آواز جس نے مارشل لا کی دہشت کو توڑا وہ جسٹس ایم آر کیانی کی تھی۔

مارشل لا کے نفاذ کے چند ماہ ہی بعد جسٹس کیانی نے ایوب خان کے مارشل لا کو چیلنج کردیا۔ اعلیٰ سرکاری افسروں کی سی ایس پی ایسوسی ایشن نے اپنے سالانہ ڈنر میں ایوب خان کو بہ طور مہمان خصوصی مدعو کیا۔ کیانی صاحب ایسوسی ایشن کے صدر تھے انھوں نے اپنے خطاب میں مارشل لا کے نفاذ کو بے جواز قرار دیتے ہوئے کہا ’’ایک فوجی حکومت بیرونی دنیا کے لیے ایک معذرت کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور ملک کی حد تک اسے صرف ایک مجبوری سمجھ کر تسلیم کیا جاسکتا ہے جسے ضرورت سے زیادہ ایک دن بھی برقرار نہیں رکھا جانا چاہیے‘‘۔

افتخار احمد عدنی ،کیانی  کی مارشل لائی دور کی تقریروں کے مجموعے ’’افکار پریشاں‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ’’پورے پانچ مہینے سے ایوب خان پر ہر طرف سے توپوں کی بارش ہو رہی تھی۔ وہ جہاں جاتے ان کی خدمت میں تہنیت نامے اور ستائش کے نذرانے پیش کیے جاتے تھے۔ وہ ہر محفل میں ایک خوشامدانہ پذیرائی کے اس قدر عادی ہوچکے تھے کہ کیانی صاحب کا بے تکلفانہ لہجہ، چبھتے ہوئے جملے مارشل لا پر ان کی کھلی تنقید، ایوب خان کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی۔ کیانی صاحب کی تقریر کے ختم ہونے پر دیر تک جو تالیاں بجتی رہیں اس سے وہ اور بھی بھڑک گئے۔‘‘

ایوب خان جواب دینے کے لیے اٹھے تو غصے سے ان کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ بقول عدنی ان کے لہجے میں ایسا جلال تھا جیسے وہ غداروں کے ایک ٹولے کو کیفرکردار تک پہنچانے کا عزم کرچکے ہوں۔ انھوں نے پہلے تو ان سوالات کا درشت الفاظ میں جواب دیا جو کیانی صاحب نے اپنی تقریر میں سرکاری افسران کے تحفظات کے ضمن میں اٹھائے تھے اور یہ کہہ کر دھمکی بھی دی کہ سرکاری افسروں کو ان کے خیال میں اتنا تحفظ حاصل ہے کہ انھیں غیر محفوظ بنائے بغیر ان کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ سرکاری محکمے یتیم خانے بن گئے ہیں، اور اس صورت حال کو بدلنا ہوگا۔ پھر بڑے طنزیہ انداز میں کہاکہ انھیں امید ہے کہ کیانی صاحب نے آج کی اپنی تقریر لکھنے میں جو محنت کی ہے اتنی ہی محنت وہ اپنے فیصلے لکھنے میں بھی کرتے ہوں گے۔ پھر انھوں نے عدلیہ پر تنقید کی کہ ہر طرف مقدموں کے ڈھیر لگے ہیں اور لوگ انصاف کی تاخیر سے پریشان ہیں۔

عدنی صاحب لکھتے ہیں جب محفل ختم ہوگئی، ایوب خان رخصت ہوگئے اور جسٹس کیانی بھی جانے لگے تو انھوں نے آہستہ سے مجھ سے کہا ’’ایوب خان کی تقریر کو حرف آخر نہ سمجھنا۔ اب میں ملک کے ہر گوشے اور ہر پلیٹ فارم سے انھیں جواب دوں گا‘‘ پھر سب نے دیکھا کہ کیانی صاحب آخر دم تک نہایت نامساعد حالات میں حق گوئی کا مقدس فریضہ ادا کرتے رہے۔

جسٹس کیانی اپنی شگفتہ بیانی کی وجہ سے بڑے مقبول مقرر تھے۔ مختلف ادارے اور انجمنیں انھیں تقریر کرنے کے لیے بلاتے رہتے تھے۔ وہ جہاں بھی جاتے شگفتہ انداز میں معنی خیز باتیں کہہ جاتے تھے۔ وہ لوگوں کو ہمیشہ ان بنیادی اقدار کی طرف توجہ دلاتے جو زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ مارشل لا کے بعد انھوں نے قومی مسائل پر خصوصیت کے ساتھ اظہار خیال کرنا شروع کردیا۔ عدنی صاحب فرماتے ہیں کہ تھوڑے ہی عرصے میں صورت حال یہ ہوگئی کیانی صاحب کی تقریر قوم کے دل کی آواز بن گئی۔ انھوں نے پشاور سے کراچی تک سفر کیے طرح طرح کی انجمنوں سے خطاب کیا اور تمام اہم مسئلوں خصوصاً آزادی اظہار رائے پر کھل کر بات کی۔

اکتوبر 1962 میں لاہور میں شہریوں کی طرف سے اپنے اعزاز میں دیے گئے الوداعی استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس کیانی نے کہا ’’میں آپ سے یہ نہیں کہتا کہ کسی کی قدر نہ کریں، میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کسی کو دھوکہ نہ دیں۔ یہ آپ کے بڑے افسر، امیر، وزیر عموماً اچھے لوگ ہوتے ہیں مگر صبح و شام جھوٹ سن سن کر ان کی طبیعت ناساز ہوجاتی ہے۔ جھوٹ کا ماحول مرطوب آب و ہوا کی طرح ہے جس سے کوتاہ نفسی کی شکایت لاحق ہوجاتی ہے۔

میرے ایک دوست نے جو پچھلے ہفتے کراچی سے آئے ہیں لاہور کے بعض لوگوں سے کہا، عجیب بات ہے آپ ان موجودہ حکومت والوں کو بھی اسی طرح ہار پہناتے ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگوں کو پہناتے تھے۔ یہ بے چارے کیسے سمجھیں گے کہ ہم میں اور ہمارے متقدین میں کچھ فرق ہے۔

ان لوگوں نے میرے دوست سے کہا کہ اس سے پہلے پیغمبروں سے بھی ایسی باتیں کی گئی ہیں کہ اگر سچے پیغمبر ہو تو کوئی معجزہ دکھاؤ۔ میرے دوست نے جواب دیا کہ پہلی امتوں نے جب یہ کہا تھا تو ان کو معجزے دکھائے گئے تھے مگر انھوں نے کیا عبرت حاصل کی؟ رات کو سوئے تو اچھی بھلی وزارت تھی۔ صبح اٹھے تو کچھ بھی نہ تھا۔ کبھی ووٹوں کی زہریلی ہوا چلی اور باغ جل کر راکھ ہوگیا۔ کبھی لاقانونیت کی مکڑی حریت خیال کے آسمان پر پیلے بادل کی طرح چھاگئی اور سب کچھ پیلا نظر آنے لگا۔ ان ہی دنوں میں جب لاقانونیت کا دور دورہ تھا ایک بہت بڑے شخص نے پشاور یا نتھیا گلی میں چند رؤسا کو تبادلہ خیال کے لیے کھانے پر بلایا۔ ان دنوں گندم تین روپیہ من تھی مگر گورنمنٹ نے پندرہ سولہ روپے من نرخ مقرر کیا تھا۔ کھانے سے پہلے دو مہمانوں نے آپس میں صلاح کی کہ میزبان گرامی کو بتائیں گے کہ اس قیمت پر گندم بازار میں نہیں آتی اور اس لیے خوب زور  شور سے بلیک مارکیٹنگ ہو رہی ہے۔

جب کھانے پر بیٹھے تو میزبان گرامی نے حاضرین سے ایک عام سوال کیا کہ گندم آج کل کس نرخ پر ملتی ہے ایک شخص نے جھٹ سے کہا یہی بارہ چودہ روپیہ من۔ میزبان گرامی یہ سن کر باغ باغ ہوگئے اور فرمانے لگے کہ دو چار روپیہ بڑھ بھی گئے تو میں برداشت کرسکتا ہوں۔ اتنے میں دونوں میں سے ایک نے منہ کھولا کہ اصل صورتحال سے میزبان گرامی کو آگاہ کرے لیکن دوسرے نے اشارے سے روک دیا اور اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

کھانے کے بعد باہر آکر اس نے اپنے دوست سے پوچھا کہ اس نے صحیح بات بتانے سے اسے کیوں روکا تو اس کے دوست نے کہا کہ آپ نے دیکھا نہیں کہ میزبان گرامی پہلے شخص کی زبان سے جھوٹی قیمت سن کر کس قدر خوش ہوئے تھے اگر آپ انھیں سچی بات بتاتے تو وہ ناراض ہوتے۔ بھائی! ہم اپنے میزبان کو ناراض کرنے تو نہیں گئے تھے۔

اس کے بعد میزبان گرامی جہاں بھی گئے انھوں نے کہا کہ معتبر ذرایع سے مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ جو قیمت حکومت نے مقرر کی ہے وہ گندم فروشوں کے لیے کافی منافع کی گنجائش رکھتی ہے۔ چنانچہ ہر منڈی میں گندم کی ڈھیریاں پڑی ہیں۔ یہ آخری بات ٹھیک تھی۔ گندم کی ڈھیریاں اس لیے پڑی تھیں کہ عام آدمی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔