چین یا امریکا؟ پولرائزیشن پاکستان کی ٹینشن

سید امجد حسین بخاری  بدھ 9 فروری 2022
یہ سوال شدت سے سر اٹھا رہا ہے کہ پاکستان کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ فوٹو: فائل

یہ سوال شدت سے سر اٹھا رہا ہے کہ پاکستان کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ فوٹو: فائل

روس، یوکرائن تنازعہ، چین میں سرمائی اولمپکس، پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر اور امریکا چین تنازعہ، بین الاقوامی میڈیا میں ان چار موضوعات پر بھرپور تبصرے ہورہے ہیں۔ لیکن ان تمام خبروں سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان نظر آرہا ہے۔

وزیراعظم کے دورہ چین سے عین قبل آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب کا اجرا، امریکا کی جانب سے پاک چین تعلقات پر فوری بیان کے کیا مقاصد ہیں؟ کیا دنیا میں سرد جنگ کا آغاز ہورہا ہے؟ کیا نئے بلاکس تشکیل پارہے ہیں؟ پاکستان کس بلاک کا حصہ بنے گا اور اس بلاک میں پاکستان کی شمولیت کے کیا فوائد ہیں؟ مجھے شاید ان خبروں میں دلچسپی بالکل بھی نہ ہوتی مگر چینی قیادت سے وزیراعظم پاکستان عمران خان اور چینی قیادت کی ملاقاتوں کے مشترکہ اعلامیہ نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔

وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں دورہ چین پر موجود حکومت پاکستان کا وفد وطن واپس پہنچ چکا ہے۔ وزیراعظم کا دورہ چین موجودہ علاقائی اور عالمی صورت حال میں یقیناً نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے چینی ہم منصب کے علاوہ چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقاتیں کیں۔ ملاقاتوں کے حوالے سے جاری مشترکہ اعلامیہ نے ایک نئی بحث کو فروغ دے دیا ہے۔

اعلامیہ کے مطابق صدر شی اور وزیراعظم عمران خان کے مابین ہونے والی ملاقات میں خطے کے امن، استحکام اور ترقی کےلیے مشترکہ کوششوں کا اعادہ کیا گیا جبکہ عالمی سطح پر جاری پولرائزیشن پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ دونوں رہنماؤں نے پولرائزیشن کو عالمی ترقی اور ترقی پذیر ممالک کےلیے سنگین خطرہ بھی قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پولرائزیشن کا نقطہ زیر بحث کیوں آیا؟ کیا روس اور یوکرائن تنازعہ اس بحث کی وجہ تھی یا امریکا اور آئی ایم ایف کا پاکستان پر دباؤ اس بحث کا نقطہ آغاز تھا؟ کیا چین پولرائزیشن پر بحث کرکے پاکستان کو کوئی پیغام دینا چاہتا ہے؟

اس وقت حقیقت میں دنیا دو بلاکس میں تقسیم دکھائی دے رہی ہے۔ دورہ چین سے قبل آئی ایم ایف کی قسط اور ڈو مور کا مطالبہ اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ کارروائیاں بھی اسی پولرازئشن گیم کا حصہ دکھائی دے رہی ہیں۔ دورہ چین سے واپسی پر ہی اسلام آباد کی فضاؤں میں رواں ماہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس کی بازگشت بھی سنائی دی۔ جس نے پولرائزیشن کے تاثر کو مزید گہرا کیا۔ اب جبکہ مشترکہ اعلامیے میں بھی اس نقطے پر بات کی گئی ہے تو یہ سوال شدت سے سر اٹھا رہا ہے کہ پاکستان کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟

ماضی میں سرد جنگ کے دوران پاکستان نے اپنا وزن مغربی بلاک کے پلڑے میں ڈالا، جس کی وجہ سے ملک میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا، اسلحہ اور منشیات کے کلچر نے معاشرے کو تباہ کیا۔ امریکی بلاک میں شمولیت کے نقصانات آج تک پاکستان بھگت رہا ہے۔ اب جبکہ پاکستان اور چین کے تعلقات میں سردمہری ختم ہورہی ہے، وزیراعظم روس کا دورہ بھی کرنے جارہے ہیں۔ بظاہر دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان امریکی بلاک سے نکلنے کےلیے کوششیں کررہا ہے۔ لیکن پاکستان کےلیے اس بلاک سے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ اس کی پہلی اور سب سے اہم وجہ پاکستان کی معاشی صورتحال ہے، کیونکہ معاشی مسائل میں گھرے وطن عزیز کی چین اور روس کی نسبت یورپی منڈیوں تک رسائی زیادہ بہتر ہے اور پاکستانی اشیا کی مارکیٹ یورپ اور امریکا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو زرمبادلہ کے ذخائر سب سے زیادہ مشرق وسطیٰ سے حاصل ہوتے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک امریکی بلاک کا حصہ ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تو امریکی آشیرباد کے بغیر ایک بیان تک نہیں دے سکتے۔ اسی طرح آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض، سعودی عرب سے موخر ادائیگیوں پر تیل کی خریداری بھی وہ مسائل ہیں جو پاکستان کو آزادانہ فیصلے کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری کے ذریعے چین پاکستان میں صنعتیں تو لگائے گا، ترقیاتی کام بھی ہوں گے مگر سوال یہ ہے کہ چین کتنی افرادی قوت پاکستان سے لے گا؟ چین عالمی ماحولیاتی معاہدوں کے باعث اپنی صنعتیں پاکستان منتقل کر رہا ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ چینی صنعتوں سے پاکستان کے ماحول کو کیسے تباہ ہونے سے بچایا جاسکے گا؟ روس کی قربت سے پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو عملی جامہ پہنائے گا، مگر کیا گیس سعودی تیل کا متبادل ثابت ہوسکے گا؟

سی پیک کو ملکی تقدیر بدلنے کا موجب سمجھا جارہا ہے مگر گوادر پورٹ اور بلوچستان میں عالمی طاقتوں بالخصوص بھارت کی مداخلت اس منصوبے میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور چینی کارکنان پر حملے پاکستان کو معاشی طور پر غیر مستحکم کرنے کی کوششیں ہیں۔ 2017 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے دورہ چین کے فوری بعد سعودی عرب کا دورہ کیا تھا، جس میں واضح پیغام تھا کہ سی پیک ملکی معیشت کےلیے انقلابی منصوبہ ہے مگر پاکستان کسی بلاک کا حصہ بننے کے بجائے ملکی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ساری دنیا سے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ مگر وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہ چین کے بعد روس کے دورے کی خبریں پاکستان کے چینی بلاک میں شمولیت کے اشارے دے رہی ہیں۔ لیکن موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال میں پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

پاکستان کو اس وقت پولرائزیشن کا حصہ بننے کے بجائے عالمی سطح پر لابنگ بہتر بنانا ہوگی۔ پاکستان کے مفاد کےلیے فیصلے کرنا ہوں گے اور یہ فیصلے ماضی کی آمرانہ حکومتوں کی طرح فرد واحد کے نہیں بلکہ جمہوری روایات کے آئینہ دار ہونے چاہئیں۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے اور کم ازکم اس معاملے پر پارلیمان کا اِن کیمرہ اجلاس بھی منعقد کیا جائے۔ ممبران پارلیمان اور تمام سیاسی قیادت کی مشاورت سے پاکستان کی پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔