عدالتی عملے کو الاؤنس ادائیگی روکنے اوررقم واپس کرنیکی ہدایت

اصغر عمر  منگل 18 فروری 2014
 کسی سرکلر کے ذریعے عدالتی فیصلے تبدیل نہیں ہوسکتے،ذرائع،عدالتی عملے میں بے چینی

کسی سرکلر کے ذریعے عدالتی فیصلے تبدیل نہیں ہوسکتے،ذرائع،عدالتی عملے میں بے چینی

کراچی: آڈیٹر جنرل پاکستان نے سرکلر جاری کیا ہے کہ عدالتی عملے کو ادا کیے جانیوالے خصوصی الاؤنس کی ادائیگی نہ صرف روک دی جائے بلکہ اس مد میں عملے نے جو رقم وصول کی ہے وہ سرکاری خزانے میں واپس کی جائے۔

سرکلر میں کہا گیا ہے کہ اسپیشل جوڈیشل الاؤنس روکنے کا فیصلہ آڈیٹر جنرل پاکستان کے دفتر میں تشکیل شدہ اعلیٰ سطح سیل نے سوچ بچار کے بعد کیا ہے ، واضح رہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں عدلیہ میں رشوت ستانی کے رجحان کی بیخ کنی کے لیے عدالتی عملے کو بنیادی تنخواہ کا 3 گنا خصوصی جوڈیشل الاؤنس کے طور پر ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیاتھا ،تاہم آڈیٹر جنرل پاکستان کے سرکلر کے مطابق یہ الاؤنس سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹ کے ججوں کے لیے مختص ہے جو جوڈیشل فرائض انجام دیتے ہیں ، دیگر سرکاری اہلکاروں کے لیے نہیں،سرکلر میںمزید کہا گیا ہے کہ اس لیے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں کے علاوہ جنھیں یہ الاؤنس ادا کیے گئے وہ فوری روک دیے جائیں اوران کی تنخواہوں یا پنشن سے قواعد کے مطابق کٹوتی کرکے وصول کیے جائیں۔

سندھ ہائیکورٹ نے یہ سرکلر وصول کرنے کے بعد مختلف برانچوں ، شعبوں اور ماتحت عدالتوں کو ارسال کردیا جس کی وجہ سے عدالتی عملے میں انتہائی بے چینی پائی جاتی ہے،صوبہ سندھ میں یہ اسپیشل جوڈیشل الاونس مئی 2011سے لاگو کیا گیاتھا،آڈیٹر جنرل پاکستان کے اس سرکلر سے ہزاروں عدالتی ملازمین وافسران کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے ،تاہم سندھ ہائیکورٹ کے ذرائع کے مطابق سندھ کے عدالتی عملے کو اس الاونس کی ادائیگی نہیں روکی جاسکتی کیونکہ یہ عدالتی حکم کی تعمیل میں ادا کیا جارہا ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سرکلر کا اطلاق ان عدالتوں میں ہوگا جہاں انتظامی فیصلے کے مطابق یہ الاونس ادا کیا جارہا تھا، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عدالتی عملے کو یہ الاونس غلط دیا جارہا ہے تو اسے مناسب طریقے سے عدالت سے ہی رجوع کرنا چاہیے ، کسی سرکلر کے ذریعے عدالتی فیصلے تبدیل نہیں ہوسکتے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔