کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟

شاہد کاظمی  ہفتہ 12 فروری 2022
کاش ہم غلط معاشرتی رسوم کی نفی کرتے ہوئے احساس کو جگہ دے سکیں۔ (فوٹو: فائل)

کاش ہم غلط معاشرتی رسوم کی نفی کرتے ہوئے احساس کو جگہ دے سکیں۔ (فوٹو: فائل)

دیگیں کھڑک رہی ہیں، خوشبو کے بھبھوکے فضا میں بکھر رہے ہیں۔ ایک ہا ہا ہو ہو کار مچی ہوئی ہے۔ کسی کو گلہ یہ ہے کہ اس کی پلیٹ میں بوٹی کیوں نہیں آئی اور کسی نے لیگ پیس نہیں کھانا تو اسے اس کی تبدیلی مقصود ہے۔ دھڑا دھڑ بھر بھر پلیٹیں بریانی کی تقسیم کی جارہی ہیں۔ برتاوے بھاگ دوڑ کرکے تقسیم کر رہے ہیں۔ کھانے والے دو اٹھتے ہیں تو چار مزید بیٹھنے کو تیار ہیں۔ ایک دیگ خالی ہوئی تو دوسری کا ڈھکن کھل جاتا ہے۔ یہ صورتحال گھنٹوں برقرار رہتی ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ یقینی طور پر کسی کی مہندی کا کھانا ہوگا یا پھر بارات کا یا اور کچھ نہیں تو خوشی کے کسی چھوٹے موٹے فنکشن میں ایسا منظر دکھائی دیا ہوگا۔ لیکن تمام اندازے غلط ہیں۔ اور یہ منظر کسی خوشی کے لمحے کا نہیں بلکہ مرگ والے ایک ایسے گھر کا ہے، جہاں سے چند منٹ پہلے ہی ایک جنازہ اٹھا۔ کسی کے باپ، کسی کے بیٹے، کسی کے بھائی، کسی کے شوہر کا جنازہ اٹھایا گیا۔ اور جنازہ اٹھنے کے فوراً بعد دیگوں کا منہ کھولا گیا۔ اور اب سب مرگ والے گھر میں مزے سے چوکڑی مار کر کھانے پر ٹوٹے ہوئے ہیں۔

دلیل پُراثر ہے کہ مہمان دور سے اگر آتے ہیں تو ان کے کھانے کا بندوبست بھی ہونا چاہیے۔ لیکن مہمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر سیکڑوں افراد کےلیے کھانے کا بندوبست کرنے کی مجبوری، کسی بھی طرح صاحبِ خانہ کےلیے سہولت یا آسانی مہیا کرنا نہیں ہے۔ اور صاحبِ خانہ جن پر پہلے ہی مرگ کی صورت میں دکھوں کا پہاڑ ٹوٹا ہوتا ہے، ان کےلیے سیکڑوں لوگوں کی پیٹ پوجا کا بندوبست کرنا مزید عذاب بن جاتا ہے۔

آپ ایک لمحہ اس سفید پوش گھرانے کا تصور کیجیے جنہیں پہلے تو کفن دفن کی فکر ستاتی ہے کہ یہی انتظامات کرنا اس دور میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ آپ کو کم و بیش آٹھ دس دیگیں تیار کروانی پڑجائیں تو رونے دھونے سے زیادہ معاشرے کے رسوم و رواج کو قائم رکھنے کی فکر ستانے لگتی ہے۔ ہم بظاہر تو دکھ میں ساتھ دینے کےلیے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم مرگ والے گھر کو ایک ایسی مشکل میں گرفتار کرنے کا باعث بن جاتے ہیں کہ جس سے وہ ایک طویل عرصہ نہیں نکل پاتے۔ اگر مرگ ایک طویل بیماری کے بعد ہوئی ہے تو علاج کے اخراجات، اور اچانک ہوئی ہے تو کوئی پیشگی انتظامات نہ کرسکنا، کمر توڑ دیتا ہے۔ اور آپ کو ایسی صورت میں معاشرے کے ساتھ ہمقدم ہونے کےلیے اگر کھانے کا بندوبست کرنا پڑجائے، اور پاس دھیلا نہ ہو تو ایک لمحہ سوچیے کہ وہ کیسے کرے گا؟

ہم بطور قوم ایک ایسے ہیجان کا شکار ہیں کہ ہم فضول معاشرتی رسوم کو پورا کرنے کےلیے ادھار جیسی لعنت میں گھرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ فکر ستائے جاتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اور حیرت ہے اس معاشرے کی اکائیوں پر بھی کہ مرگ والے گھر سے اگر کھانا نہ ملے یا بہتر نہ ملے تو گلے شکوے کرنا فرضِ عین ہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ جس گھر میں مرگ ہوئی ہے ان کی مالی حیثیت کیا ہے؟ ہم تو صرف باتیں کرنا جانتے ہیں۔ ہم کہنے کو دکھ بانٹتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کے زخموں پر نمک پاشی کےلیے جاتے ہیں۔

بے شک معاشرتی طور پر ہم مسائل کا شکار ہیں۔ لیکن ہم میں سے کسی کو تو پہل کرنا ہوگی۔ کوئی آواز تو ان رسومات کے خلاف بھی بلند ہونی چاہیے۔ مرگ والے دن، یعنی پہلے دن کے کھانے کے اخراجات ہوں یا ہر جمعرات پوری برادری اور محلے کو جمع کرکے کھانے سے ان کی تواضع کرنا، بہرصورت یہ ایک اضافی بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سوئم، قل، دسواں، چالیسواں، تمام مواقع پر دعا کے نام پر جس طرح کھانے کا اہتمام ہوتا ہے وہ صاحبِ ثروت لوگوں کےلیے تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن ان صاحبِ ثروت لوگوں کے اس عمل کی وجہ سے سفید پوش افراد صرف معاشرتی رسمیں نبھانے کےلیے اپنی نسلوں تک کو قرض دار کرلیتے ہیں۔

ہماری نسل آخری گواہ ہیں لحاف میں چھپ کر نانیوں دادیوں سے کہانیاں سننے کی۔ ہم سنتے تھے کہ جب کبھی محلے میں فوتگی ہوجاتی تو صاحبِ خانہ کو علم ہی نہیں ہوتا تھا کہ اگر میت کو رات رکھنا پڑتا اور جنازہ صبح ہوتا تو کہاں مہمان ٹھہرائے جانے ہیں اور کہاں ان کے آرام کا بندوبست ہوگیا۔ سب اہلِ محلہ کرتے تھے۔ صبح کا ناشتہ پڑوسیوں کے ہاں سے آتا تھا۔ فوتگی کا پہلا دن، سوئم، قل، دسواں، چالیسواں مکمل طور پر فوتگی والے گھر چولہا جلانے سے حتی الوسع روکنے کی سعی کی جاتی تھی۔ اور آس پڑوس سے عزیز و اقارب، دوست، احباب مدد کو آتے تھے۔ لیکن یہ سب اب کہانیوں میں ملتا ہے۔ یہ قصے شائد گئے وقتوں کے ساتھ ہی کہیں چلے گئے۔ اب میت ہوجانا الگ دُکھ ہے اور میت کو سنبھالنے کے ساتھ مہمانوں کو سنبھالنا الگ زحمت۔

غریب کا تو اب زندہ رہنا بھی مشکل اور مرنا بھی۔ لاکھوں کے اخراجات اٹھ جاتے ہیں۔ سفید پوشوں کا دیوالیہ ہوجاتا مرگ سنبھالتے ہوئے۔ کاش ہم معاشرتی رسوم کی نفی کرتے ہوئے احساس کو جگہ دے سکیں۔ ہم فضول روایات کا قلع قمع کرتے ہوئے پرانی اقدار کو ہی واپس لے آئیں۔ میت والے گھر چوکڑی مار کر پیٹ پوجا کرنا کیا واقعی دُکھ بانٹنا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔