یہ کہانی کئی بار کی سنی ہوئی ہے

راؤ سیف الزماں  جمعـء 11 فروری 2022
saifuzzaman1966@gmail.com

[email protected]

سنا ہے بلکہ آج کل تو بہت سن رہے ہیں کہ موجودہ حکومت پر حالت نزع طاری ہے۔ بدن میں رعشہ آ چکا ، دن گنے جاچکے، نئے وزیر اعظم کے چناؤ تک پر اتفاق ہوگیا، بس اعلان بریت ہی باقی ہے جو عنقریب متوقع ہے ، لیکن سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ کام ہوگا کس طرح؟ کیا عدم اعتماد آجائے گی؟ یا کسی اہم بل کی منظوری کے وقت حکومتی اراکین کی تعداد مطلوبہ تعداد سے کم نکل آئے گی۔

کوئی ایمرجنسی؟ مارشل لاء آخر ایسا کیا ہوگا کہ حکومت چلتی بنے گی؟ لیکن ماضی بعید و قریب میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ افواہیں سچ ثابت ہوئیں۔ اچانک کچھ ایسا ہوا کہ اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومت مستحکم سے غیر مستحکم ہوگئی اور دنوں میں ختم کردی گئی یا خود ہی انجام پذیر ہوگئی۔ تو یہ ماننے میں بظاہرکوئی حرج دکھائی نہیں دیتا کہ ایسا آج بھی ممکن ہے۔ راستے بہت سے ہیں ، ٹول بکس بھرا ہوا ہے ، ان اوزاروں سے جو اس کار خیر میں کام آتے ہیں۔

ماضی سے اس مرتبہ اگر کچھ مختلف ہوگا تو وہ یہ کہ موجودہ حکومت واقعی بری طرح سے ناکام ہوگئی اور کوئی شعبہ زندگی ایسا نہ رہا جہاں حکومت کی نا اہلی سامنے نہ آئی ہو یا حکمرانوں نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہو۔ دنیا کا ایسا کوئی ترقی یافتہ ملک باقی نہیں رہا جس سے ہم نے قرضے نہ لیے ہوں۔ گویا آج کی تاریخ میں پاکستان 10 ارب ڈالرزکا مقروض ہوچکا ہے جب کہ ملکی اداروں کی کرپشن میں رتی برابر کوئی کمی نہیں وہ اسی انداز میں ملک کو لوٹ رہے ہیں۔

ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں ، البتہ عوام پر نت نئے ٹیکسزکا نفاذ عمل میں ہے، وہ عوام جو پہلے ہی سے مہنگائی کی چکی میں بری طرح سے پس چکے اور غربت کی لکیر سے کوئی میل نیچے جی رہے ہیں۔ معاشرتی قدریں اس قدر پامال ہوچکیں کہ نہ مدارس محفوظ رہے نہ مساجد۔ کسی کو اپنی منزل کا ادراک نہیں کوئی نہیں جانتا اسے کیا کرنا ہے ، بس اندھا دھند جیے جا رہے ہیں۔

ادارے البتہ مال حرام کھا کھا کر موٹے ہوتے گئے۔ سیاستدانوں کا پیٹ عمر و عیار کی زنبیل جیسا بھرتا ہی نہیں، لیکن ایسے میں یہ خیال بھی ذہن پر بوجھ ہی ہے کہ یہ حکومت چلی بھی گئی تو کیا ملک اور عوام کے حالات سدھر جائیں گے؟ میری رائے میں تو کبھی نہیں۔ بس ظلم و جبر کی زنجیر میں کچھ کڑیوں کا اضافہ اور ہوجائے گا۔

ملک قرضوں میں ڈوب چکا ، مرضوں میں گھر چکا۔ آپ نے اس ملک پر قبضہ تو کر لیا لیکن آپ اس کی حفاظت نہ کرسکے آپ کوئی اچھی حکومت کرنے میں بھی بری طرح سے ناکام رہے اور دینے میں بھی۔ آپ کے بار بار کے کیے گئے تجربات نے ملک کی جڑوں تک کو کھوکھلا کردیا اور اب بھی سنا ہے کہ آپ کسی کے سر پر دست شفقت رکھ رہے ہیں کسی کی گردن ناپ رہے ہیں۔ آخر آپ وہ کام کیوں نہیں کرتے جس کا حلف اٹھاتے ہیں؟ وہ لوگ جن کا دعویٰ ہے کہ عوام انھیں منتخب کرتے ہیں اور وہ جمہوریت کے دعویدار بنے پھرتے ہیں۔

ان کا حال اداروں سے بھی زیادہ مخدوش ہے بقول وزیر داخلہ کے فون ان ہی کو آتے ہیں جو فون سنتے ہیں۔ یعنی آج بھی صورتحال یہ ہے کہ جس پر مہربانی ہوگی ، اقتدار کا تاج اسی کے سر پر سجے گا۔ ہر دن ڈیل کی باتیں ہوتی ہیں لوگ میڈیا پر کھلے عام تبصرہ کرتے ہیں کہ کس سے ڈیل کامیاب ہو رہی ہے کس سے ناکام! سمجھ سے بالاتر ہوگیا۔ یہ ملک اور اس کے ادارے، اس کے سیاست دان اس کے عوام۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ترقی کی نئی منازل طے کرتے ہوئے اور ہم نے ترقی کی تو کہاں ، ڈیلوں میں۔ حد ہوگئی لوٹ مارکی ، حد ہوگئی ملک سے بے وفائی کی۔ ہم سب نے مل کر اپنے ہی سماج کو تہہ تیغ کردیا۔

اجتماعی خود کشی کرلی اور اس مستزاد یہ کہ دعویٰ ترقی کا ہے! پڑوسی ممالک سے مقابلہ ہے۔ خود کو ایٹمی قوت گردانتے ہیں ، جن کی اپنی کوئی اکائی نہیں، طرز معاشرت نہیں وہ دنیا پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ وہ امریکا اور یورپ کی مثالیں دے رہے ہیں۔

دراصل ہم تسلسل کے عادی نہیں رہے۔ ہم نے ایک بیمار معاشرے پر اتنے تجربات کیے کہ وہ قرب المرگ ہوگیا اور اب شاید پھرکوئی نیا تجربہ زیر غور ہے صدارتی نظام حکومت کا جب کہ ملک میں کم از کم 46 سال یہی نظام حکومت رائج رہا ہے اور تنزلی کی بڑی وجہ بھی ، لیکن بس ہمیں پاکستان کو فٹ بال بناکر اس سے کھیلنا ہے ، لیکن کب تک؟ آخرکب تک۔ دہشت گرد مضبوط ہورہے ہیں وہ اپنا خود ساختہ نظام اور اسلام آپ پر نافذ کرنا چاہتے ہیں ، جو ملک لاکھوں شہادتوں سے حاصل ہوا اس پر قابض ہونا چاہتے ہیں اور یہ وہی شہادتیں ہیں جن سے آپ نے غداری کی ، جن کا مذاق اُڑایا ، آزادی کی نعمت کو بے دریغ لوٹا۔ ایک غریب کی غربت کا مذاق اڑایا گیا۔

74 سالوں سے لوٹ مار جاری ہے، ملک کا بھنگی خانہ بنادیا گیا اور کوئی انقلابی پیدا نہیں ہوا اور ہو بھی کہاں سے۔ پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، کے پی کے۔ کہاں سے آخر۔ سیاست ، معیشت ، تجارت ، طب ، ٹیکنالوجی ، تعلیم ، تربیت سب کچھ ڈوب گیا۔ ٹوٹ گیا ، باقی رہ گئیں سازشیں ، منافقتیں ، مکاریاں ، لوٹ کھسوٹ ، تجربے۔کوئی ہے جو دعویٰ کرسکے کہ وہ تھا اور اس نے آزادی کی نعمتوں کا خراج ادا کیا ، شکر کیا ، ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کیے؟ ملک سے محبت کی۔ دینی قدروں کی پاسداری کی ہے کوئی؟ آواز نہیں ، آواز نہیں آئی ، شاید کوئی نہیں ہے۔

آج وہ وقت آگیا جب دو وقت کی روٹی کھانا ممکن نا رہا تو کون اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے جیسی عیاشی کا ارتکاب کر ے؟ زندگی ایک سزا بن کر رہ گئی تو ایسے میں حکومت جانے یا آنے سے کسے دلچسپی ہو؟ کوئی کرپشن ایسی بھی ہے جس میں لاکھوں ، کروڑوں روپے کھائے گئے ہوں ؟ نہیں ہے آج ہونے والی ہر کرپشن اربوں روپے کی ہے کئی کئی سو ارب کی اور اس پر شرم نام کی کسی چیز کو پاکستان میں انتقال کیے بھی شاید برسوں گزرگئے کہ دعویٰ وہی ترقی کا ہے نعرہ ’’ہم زندہ قوم ہیں ‘‘ کا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ، افراتفری اور بد انتظامی کے عروج پر ہے پھر بھی نت نئے تجربات زیرِ غور ہیں وہی جو میں نے ابتدا میں بیان کیا تھا کہ حکومت جانے والی ہے فلاں کی آنے والی ہے ، لیکن کچھ بھی ہو اربابِ اقتدار کا اصل منصوبہ پھر سے کرپشن ہے ، کسی اور ڈھنگ سے کسی اور رنگ سے۔ مان لیتے ہیں کہ یہ ملک یتیم ہے، اس کا کوئی والی وارث نہیں ،کوئی نہیں جو اس کا رکھوالا ہو یہ وہ گھر ہے جس کا چوکیدار چوروں سے ملا ہوا ہے جس کا منصف انصاف کرنے سے پہلے ادھر اُدھر جھانک کر دیکھتا ہے ، لیکن ملک کے غریب ، مفلس ، بے بس عوام آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہاں سے کیا فیصلہ آتا ہے اور کب آتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔