لتا منگیشکر،دوصدیوں کی گلوگارہ اور بہادر لڑکی مسکان

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 13 فروری 2022
advo786@yahoo.com

[email protected]

آنجہانی گلوکارہ لتامنگیشکر کو دو صدیوں کی عظیم گلوکارہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

92 سالہ لتا منگیشکر نے 12 سال کی عمر سے گانا شروع کیا، اس لحاظ سے ان کی گائیکی کا دورانیہ کم و بیش 80 سالوں پر محیط ہے ،جس کے دوران انھوں نے 20 سے زائد زبانوں میں 30 ہزار سے زائد گانے ریکارڈ کرائے انھیں تین یا چار نسلوں کی گلوکارہ بھی کہا جاسکتا ہے، یہ اعزاز کسی دوسرے گلوکار کو حاصل نہیں ہوا۔

ان کی خدمات کے صلے میں انھیں ہندوستان کے بڑے قومی ایوارڈز سے نوازا گیا اور دنیا بھر میں بھی ان کو اعزازات اور محبتوں سے نوازا گیا۔ فن کے لحاظ سے وہ کسی ایک خطے، ملک، مذہب یا قومیت کی حلقہ بندی کی قید سے بالاتر ہردلعزیز اور پسندیدہ فنکارہ تھیں۔

میں نے بیرون ملک ایسے لوگوں کو بھی لتا کے گانے گنگناتے دیکھا ہے جن کا کلچر و زبان برصغیر سے بالکل مختلف ہے اور جن کو اردو یا ہندی وغیرہ کا ایک جملہ سمجھنا یا بولنا نہیں آتا مگر لتا کے گیتوں کا سریلا پن ان کے ذہنوں میں رس گھول کر ان کے ہونٹوں سے گنگناہٹ کی صورت میں باہر آجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فنکار محبتوں کے سفیر ہوتے ہیں ان کی کوئی علاقائی جغرافیائی حد بندی نہیں ہوتی۔

بتایا جاتا ہے کہ جب لتا منگیشکر اپنی پرانی دوست ملکہ ترنم نور جہاں سے ملنے بارڈر پر پہنچ کر ان سے بغل گیر ہوئیں تو فرط جذبات سے دونوں کی آنکھیں نمناک ہوگئی تھیں ،یہ منظر دیکھ کر وہاں موجود فوجیوں کی آنکھیں نم دیدہ ہوگئی تھیں۔

لتا جی کے جسدخاکی کو آخری دیدار کے لیے شیواجی پارک میں رکھا گیا تھا جہاں ان کے آخری دیدار کے لیے گلوکاروں، اداکاروں، کھلاڑیوں، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی بڑی شخصیات موجود تھیں۔ ان میں شاہ رخ خان بھی موجود تھے جن کا لتا جی سے انسیت و عقیدت کا باہم تعلق تھا۔

جب شاہ رخ نے اپنے انداز میں لتا جی کے لیے دعا کرکے ان پر پھونکا تو بالی ووڈ کنگ کے اس خراج عقیدت پیش کرنے کی وڈیو کو ہندو انتہا پسندوں نے پھونک کے بجائے تھوک سے تعبیر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس اقدام پر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

تاہم اعتدال و انصاف پسند ہندوؤں نے شاہ رخ کا دفاع کرتے ہوئے شاہ رخ کی دعائی پھونک کو تھوک قرار دینے والوں کو منفی سوچ کا حامل اور مذاہب کے درمیان نفرت پھیلانے، نفرت کا زہر اگلنے کا حربہ اور سستی شہرت اور مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوششیں قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ وہ اتنی نفرت کہاں سے لائے ہیں؟ شاہ رخ بھارت کا فخر ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان پر تنقید کرنیوالے خود پر تھوک رہے ہیں۔

افسوس کا پہلو یہ ہے کہ اس سارے پروپیگنڈے کو پروان چڑھانے میں بی جے پی کا ہاتھ ہے وہ بھی ایسے موقع پر جب ساری دنیا لتا جی کی موت پر افسردہ تھی اور اجتماعی طور پر ان سے والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار کر رہی تھی، ایسے موقع پر تقسیم و تفریق سوائے مذموم مقاصد کے حامل شرپسندوں، موقع پرستوں اور سیاسی و مذہبی عزائم کے حامل عناصر کے خود بھارت اور اس کے عوام کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت اور جماعت اس سلسلے میں اپنا خراب ریکارڈ رکھتی ہے جو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ہندو شدت پسند گروہوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ منظم انداز میں ظلم و ستم اور ناانصافیوں کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے جس کی ایک طویل فہرست ہے۔

گزشتہ ماہ کرناٹک کے ایک سرکاری اسکول میں مسلمان طالبات کو حجاب پہننے سے روکا گیا تھا، جس کے بعد دیگر کئی تعلیمی اداروں میں بھی اسی قسم کے احکامات جاری کردیے گئے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے روز پی ایس ای کالج کی ایک باحجاب طالبہ کالج پہنچی تو انتہا پسند ہندو لڑکوں نے جو مخصوص رنگ کے مفلر پہنے ہوئے تھے، اس لڑکی کو کالج میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی اور اسے گھیر کر جے شری رام کے نعرے لگائے جس کے جواب میں اس تنہا طالبہ نے اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے جس کے بعد اساتذہ نے موقع پر پہنچ کر اس طالبہ کی جان بخشی کرائی۔

لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ کالج پہنچی تو کالج کے لڑکوں اور کچھ بیرونی عناصر نے اسے روکنے کی کوشش کی اور کہا پہلے حجاب اتارو، بعد میں تمہیں کالج میں داخل ہونے دیا جائے گا، طالبہ نے کہا کہ لڑکوں نے مجھے ہراساں کرنے کی کوشش کی، پہلے ان لوگوں نے جے شری رام کے نعرے لگائے جس کے جواب میں، میں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔

اس واقعہ کے بعد کالج کی کچھ طالبات نے اس طالبہ کے حق میں مظاہرہ بھی کیا۔ روکنے والے انتہا پسندوں نے کالج میں ہندوتوا کا جھنڈا لہرا دیا ہے۔سوشل میڈیا پر لوگوں نے انتہا پسندوں کا بہادری سے مقابلہ کرنے پر اس لڑکی کو شیرنی کا خطاب دیا۔

جمعیت علما ہند کے سربراہ مولانا محمود مدنی نے طالبہ کے لیے 5 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے اس صورتحال سے مسلمانوں میں خوف و ہراس اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے جس کا ذمے دار وہ مودی کی قوم پرست حکومت کو ٹھہراتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ پابندی نہ صرف امتیازی سلوک ہے بلکہ بھارت کے آئین کے بھی خلاف ہے۔

اس امتیازی و متعصبانہ اقدام کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست بھر میں مظاہرے شدت اختیار کرگئے ہیں تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔ پولیس پابندی کے حق اور مخالفت میں مظاہرے کرنیوالے ہندو و مسلمان طلبا پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کر رہی ہے، ریاستی وزیر اعلیٰ عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کر رہے ہیں ،پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ خواتین کے لیے حجاب پہننا اسلامی تعلیمات کیمطابق ہے مسلم طالبات کو ہراساں کیا جا رہا ہے لہٰذا ریاست تحفظ فراہم کرے۔ درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریاست تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے جب کہ بی جے پی کے کئی سرکردہ ارکان اس پابندی کی حمایت کر رہے ہیں مسلمانوں سمیت تمام انصاف پسندوں کی نظریں بھارت کی عدالت عالیہ پر لگی ہوئی ہیں۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں سے نفرت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ گاؤ رکھشکوں کی طرف سے مسلمان شہریوں پر تشدد اور لو جہاد کے نام پر جوڑوں کی ہراسگی عام ہوچکی ہے جب کہ وزیر اعظم اور ان کے اعلیٰ رہنما اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

مجیب مشانی، سوہنی راج اور ہری کمار پر مشتمل ٹیم کی تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے کئی علاقوں میں نام نہاد گاؤ رکھشکوں نے گائے کی توہین کے الزام پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا شادی شدہ جوڑوں کو ٹرینوں، ہوٹلوں اور گھروں سے اس شبے میں گھسیٹ کر باہر نکالا گیا کہ ہندو خواتین کو مسلمان مردوں نے ورغلایا ہو، حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بھارت سے تعلق رکھنے والے شوبز اور کھیلوں سے متعلق بڑی بڑی شخصیات کی بیویاں ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہیں جن میں خود شاہ رخ خان کے علاوہ عامر خان، سلمان خان، سیف علی خان، نصیرالدین شاہ اور کرکٹر اظہر الدین جیسے نام شامل ہیں۔

جن کا ہندو مذہب کی جانب جھکاؤ کا یہ عالم ہے کہ ان کے گھروں میں رامائن و گیتا اور دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں نصب ہیں اور یہ پوجا پاٹ کرتے مندروں اور کلیساؤں میں جاتے نظر آتے رہتے ہیں۔ شاہ رخ خان کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ ان کے گھر میں ہندوؤں اور عیسائیوں کی عبادت گاہیں بھی موجود ہیں پھر بھی اس کے ساتھ یہ سلوک بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔

قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ یہ تمام اقدامات اور واقعات منظم منصوبہ بندی کے تحت ایک مرتبہ پھر مسلم کش فسادات بھڑکانے کی سازش کا حصہ ہیں، مودی حکومت کی اس پالیسی کے نتائج بھارت اور بھارتی عوام کے لیے بڑے ہولناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

بھارت کی صورتحال پر فواد چوہدری کا یہ تبصرہ بڑا جامع اور فکر انگیز ہے کہ ’’مودی کے بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خوفناک ہے، بھارتی معاشرہ غیر متوازن قیادت کی موجودگی میں بڑی تیزی سے زوال کی جانب گامزن ہے۔‘‘ بھارت کے سنجیدہ حلقوں کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔