سندھ فیسٹیول سے پیپلز پارٹی کو سیاسی فائدہ ہوگا؟

جی ایم جمالی  بدھ 19 فروری 2014
بعض کا خیال تھا کہ پنجاب یوتھ فیسٹیول میں عام لوگوں کی شرکت زیادہ ہے جبکہ سندھ فیسٹیول میں عام لوگوں کی شرکت نہیں ہے۔  فوٹو : فائل

بعض کا خیال تھا کہ پنجاب یوتھ فیسٹیول میں عام لوگوں کی شرکت زیادہ ہے جبکہ سندھ فیسٹیول میں عام لوگوں کی شرکت نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

کراچی: یکم فروری سے شروع ہونے والا سندھ فیسٹیول پورے سندھ میں ہلچل مچانے کے بعد اختتام پذیر ہوچکا ہے۔

اختتامی تقریب تاریخی شہر ٹھٹھہ کے مکلی اسٹیڈیم میں منعقد ہوئی، جس سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیر مین بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کیا ۔ اس خطاب کے بعد یہ احساس ہوا ہے کہ پاکستان میں ایک لیڈر جنم لے چکا ہے۔ بلاول بھٹو اپنے انداز اور اپنے بیان میں ذوالفقار علی بھٹو نظر آئے ۔ لوگوں کے لیے غیر متوقع بات یہ ہے کہ انہوں نے فی البدیہہ اردو میں خطاب کیا اور اپنے خطاب میں انہوں نے انگریزی زبان کا ایک لفظ بھی استعمال نہیں کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے دیگر سیاست دانوں کی طرح کوئی ایسی بات نہیں کی ، جس کا تعلق عوام اور پاکستان سے نہ ہو ۔ انہوں نے روایتی باتیں بھی نہیں کیں بلکہ پاکستان کے سب سے اہم اور سلگتے ہوئے ایشو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اپنا مؤقف واضح کیا۔

ان کے خطاب میں خوف اور مصلحت سے نفرت کا اظہار تھا۔ انہوں نے طالبان اور ان کی ذہنیت کو للکارا اور بتایا کہ جبر سے دلوں کو فتح نہیں کیا جا سکتا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’’ میں وادی سندھ کا بیٹا ہوں۔ سندھ باب الاسلام ہے۔ سندھی وہ زبان ہے جس میں سب سے پہلے قرآن پاک کا ترجمہ ہوا ۔ ہمیں نہ بتایا جائے کہ اسلام کیا اور شریعت کیا ہے۔‘‘ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں طالبان کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کے حوالے سے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ طالبان سے مذاکرات کرنے والے طالبان کے ہاتھوں شہید ہونے والے فوجی افسروں اور جوانوں کے اہل خانہ سے پوچھیں کہ ان کے ساتھ کیا گزر رہی ہے۔

دہشت گردی کا شکار ہونے والے پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے جوانوں اور افسروں کی بیواؤں اور بچوں سے پوچھیں کہ وہ کس حال میں ہیں ۔ ان ہزاروں خاندانوں سے پوچھیں ، جن کے بچے، بھائی یا والدین دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ بلاول بھٹو کے خطاب سے سندھ فیسٹیول پر ان لوگوں کااعتراض ختم ہو گیا ہے جو کہتے تھے کہ فیسٹیول کا سیاسی رنگ نہیں آسکا ہے۔

پنجاب میں ہونے والے یوتھ فیسٹیول اور سندھ فیسٹیول ایک ساتھ ہی منعقد ہوئے۔ مختلف سیاسی تجزیہ نگار ان دونوں فیسٹیولز کا موازنہ بھی کرتے رہے۔ بعض حلقوں کا یہ خیال تھا کہ پنجاب یوتھ فیسٹیول میں عام لوگوں کی شرکت زیادہ ہے جبکہ سندھ فیسٹیول میں عام لوگوں کی شرکت نہیں ہے لیکن یہ رائے قائم کرتے وقت ایک اہم بات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ پنجاب میں یوتھ فیسٹیول کے تحت ہونے والی سرگرمیوں میں سکیورٹی خطرات نہیں تھے جبکہ سندھ فیسٹیول کی ایک تقریب کے لیے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کرنا پڑتے تھے۔ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس بھی یہی تھیں کہ انتہا پسند ان تقریبات کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

پیپلز پارٹی والوں کا کہنا یہ ہے کہ پنجاب میں یوتھ فیسٹیول منعقد کرنے والوں کو اس بات کا اطمینان تھا کہ طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہ ان کی تقریبات میں گڑ بڑ نہیں کریں گے جبکہ تمام وفاقی اور صوبائی انٹیلی جنس ادارے سندھ حکومت کو متنبہ کر رہے تھے کہ سندھ فیسٹیول کی تقریبات پر دہشت گردوں کے حملوں کا خطرہ ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو سب سے زیادہ سکیورٹی خطرات کا سامنا تھا۔ اس صورت حال میں سندھ فیسٹیول خیریت سے اختتام پذیر ہوگیا۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو مئی 2013ء کے عام انتخابات میں اپنی مہم بھی نہیں چلا سکی تھی۔ جبر اور دہشت گردی کے اس ماحول میں سندھ فیسٹیول کا انعقاد سکیورٹی کے حصار میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت، بہت بڑا سیاسی کارنامہ ہے۔

سندھ فیسٹیول کی اختتامی تقریب سے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی صاحبزادیوں اور بلاول بھٹو زرداری کی ہمشیرہ بختاور بھٹو زرداری نے بھی پر اثر خطاب کیا۔ مکلی اسٹیڈیم میں اس موقع پر سندھ کی ثقافت کو بھی بھرپور طریقے سے اجاگر کیا گیا۔ ممتاز صوفی فنکارہ عابدہ پروین نے اپنی گائیکی سے تقریب کے شرکاء کے دل موہ لیے۔ اس اختتامی تقریب سے سندھ کے لوگوں میں زبردست جوش و خروش پیدا ہوا اور بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں سندھ سمیت پورے پاکستان کے لوگوں کو یہ واضح پیغام بھی دیا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت ابتلا کے اس دور میں قوم کے ساتھ ہے اور وہ دہشت گردوں کے خلاف اس کا دو ٹوک مؤقف ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے نہ صرف طالبان کو للکارا ہے بلکہ یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ انہیں آخری مزاحمت سندھ سے ملے گی۔ اس سے پیپلز پارٹی کی قیادت کی سوچ واضح ہوتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ سندھ کو روشن خیال ، ترقی پسند اور جمہوری قوتوں کے ایک مضبوط قلعہ کے طور پر برقرار رکھا جائے ۔ طویل عرصے بعد سندھ فیسٹیول کی صورت میں جو سرگرمی شروع ہوئی ہے، وہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے بڑی سیاسی سرگرمیوں کی بنیاد بن سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔