نسلی تفریق کا سماجی و سیاسی کردار (تیسرا حصہ)

شبانہ یوسف  منگل 18 فروری 2014

وہ فرق جو کبھی دوسرے مختلف کے حوالے سے کسی خوف پر مبنی تھا اب استحصالی طبقات کے احساسِ برتری کی تسکین کے لیے اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم کو جاری رکھنے کے لیے عمل آراء ہوتا ہے۔ اس کے تحت ہونے والی غیر مساوی تقسیم کئی ساختوں میں رونما ہوتی ہے، مگر سب سے اہم وقت کی وہ ساخت ہے جو تبدیلی کے عمل سے مسلسل گزر رہی ہے جو ایک عہد کو دوسرے عہد سے نہ تو مکمل جدا کرتی ہے اور نہ ہی دو ادوار کو ہم آہنگ ہونے دیتی ہے ۔ اس کو تحریر میں تفریق کا نام بھی دیتا ہے جو دو لفظوں کے درمیان موجود ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی، کیونکہ یہ مکمل حال میں نہیں ہوتا بلکہ ماضی اور مستقبل بھی اس میں موجود ہوتا ہے۔ اس فرق کو اگر ہم تحریر سے باہر سماج میں دیکھیں تو یہ  ڈیفرنس کی مادی ساخت میں دو ثقافتوں کے درمیان زمینی و زمانی، مذہبی و سماجی روایات کے فرق کی صورت کا فرما نظر آتا ہے، جو ایک کو دوسرے سے مختلف شناخت کرتا ہے تا کہ پہچان کی بنیاد بنے مگر یہ فرق کبھی نہ ختم ہونے والا وقت کا سفر بھی ہے جو کسی بھی ایک پہچان کو مستقل نہیں رہنے دیتا، اس کی مبہم اور غیر مستقل ساختوں کو بوقتِ ضرورت سامراج اپنے مقاصد کے مطابق استعمال کرتا ہے اور دو ثقافتوں، سماجوں یا نسلوں کے بنیادی فرق کو ہی بنیاد بنا کر طاقتور سیاسی گروہ کے ذریعے کمزور گرہوں کا استحصال کرتا ہے تو کبھی بوقت ضرورت خود کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے ’دوسرے‘ کمزور کی سطح پر استحکام بخشتا ہے تا کہ خود کو تنہائی اور استحصال زدہ طبقے کی شناخت عطا کر کے مقابل موجود طاقتور سے علیحدگی کا مطالبہ کر سکیں۔

پوری انسانی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ دو طبقات ہر سماج میں موجود رہے ہیں جن کے مابین ڈیفرنس ایک کو ’پہلے‘ استحصالی کی سطح پر استحکام بخشتا ہے تو دوسرے کو پسے ہوئے ’دوسرے ‘کی سطح پر رکھتا ہے۔ استحصالی طبقہ اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے کئی طرح کے روپ دھارتا رہتا ہے اور اپنے اوپر کسی بھی قسم کا تسلط برداشت کرنے کا نفسیاتی طور پر عادی نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنے زیر تسلط طبقے کی فلاح چاہتا ہے، یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ پسے ہوئے طبقات کو زیادہ سے زیادہ پسماندہ رکھتا ہے تا کہ ان کو اس کے استحصال کا شعور نہ ہوسکے۔ اس کے لیے وہ سماج میں موجود ہر قسم کے طاقت کے مراکز سے پسے ہوئے طبقات کو دور رکھتا ہے، جیسا کہ علم ہمیشہ سے طاقت کی ایک اہم ساخت رہا ہے کبھی مذہبی علوم تو کبھی سائنسی علوم اور اب ٹیکنولوجیکل علوم طاقت کی ایسی ساختیں ہیں جو انسانی زندگی میں فیصلہ کن اثرات مرتب کر رہی ہیں، مگر پسے ہوئے طبقات کی رسائی علوم کے مراکز تک نہیں ہونے دی جارہی۔ یہاں پر ہم تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان حائل ڈیفرنس کو دیکھ سکتے ہیں۔ تعلیم یافتہ طبقہ اپنے حقوق کا شعور رکھتا ہے اور اس کے حصول کے لیے صحیح سمت میں قدم بڑھاتا ہے جب کہ غیر تعلیم یافتہ طبقہ آسانی سے رسم و رواج اور نسل پرستانہ خیالات سے گمراہ ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اپنے استحصالیوں کا شعور ہی نہیں رکھتا ، کہ اس کی جدو جہد کن قوتوں کے خلاف ہونی چاہیے وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، جیسا کہ بلوچستان جس کو بیرونی اور اندرونی سامراج اپنے مقاصد کے لیے بھر پور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔

کیونکہ ڈیفرنس صرف بیرونی نہیں ہوتا بلکہ اندرونی بھی ہوتا ہے ، ڈیفرنس کا کوئی ایک مرکز نہیں ہے کوئی ایک ساخت نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی سماجی یا مادی ساختیں مختلف ذیلی ساختوں کا مجموعہ ہوتی ہیں اسی طرح کوئی  قبیلہ، سماج یا معاشرہ افراد کا مجموعہ ہوتا ہے اور کوئی بھی گروہ یا مجموعہ مختلف افراد کو کسی نہ کسی مادی یا خیالی مماثلت کے تحت اکٹھا تو کرتا ہے مگر اس ڈیفرنس کو کبھی ختم نہیں کر سکتا جو زمان و مکان کی صورت کئی مادی و خیالی ساختوں میں ان کے اندر موجود رہتا ہے جو ایک فرد کو دوسرے سے ہمیشہ الگ شناخت کرتا ہے اسی تفریق کو سیاسی استحصالی وقت کی ضرورت کے تحت کبھی مثبت طریقے سے تو کبھی منفی طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ پسے ہوئے بلوچ عوام سمجھتے ہیں کہ ان کی حق تلفی فیڈرل گورنمنٹ یا پنجاب کر رہا ہے، پنجاب کے خلاف بلوچ کی نفرت رنگ و نسل کے علاوہ زمانی و مکانی اور لسانی ڈیفرنس کی بنیاد پر پروان چڑھائی جارہی ہے، جب کہ پنجاب کے عوام جو خود بھی استحصال زدہ ہیں اپنے پسے ہوئے بلوچی عوام سے کسی بھی سطح پر نفرت کا اظہار کرتے دکھائی نہیں دیے۔

پسے ہوئے بلوچ طبقات اپنے حقیقی استحصالیوں کے چہرے پہچاننے سے اس لیے قاصر دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کو وہ ڈیفرنس نمایاں کر کے دکھایا جا رہا ہے جو رنگ و نسل کے علاوہ پنجاب کے عوام کے معیارِ زندگی میں اور بلوچ عوام کے معیارِ زندگی میں موجود ہے، انھیں اپنی اور پنجاب کے عوام کی مادی حالتوں میں بظاہر پایا جانے والا معمولی فرق تو دکھائی دے رہا ہے مگر وہ اس حقیقت کو سمجھ نہیں پارہے کہ اس ڈیفرنس کو برقرار رکھنے میں کن کا کردار ہے ، ان کے معیارِ زندگی کو بہتر نہ کرنے میں زیادہ قصور ان کے اپنے ہی بلوچی سامراج اور مقامی استحصالی طبقے کا ہے ، قابل ترس یہ بات ہے کہ پسے ہوئے عوام کو اس بات کا ادراک بھی نہیں کہ وہ اپنے ہی خلاف بر سرِ پیکار اس وقت ہوتے ہیں جب کسی بھی ترقیاتی منصوبے کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کے لیے بلوچ سردار انھی کی عوامی قوت کو فیڈرل گورنمنٹ کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔

سماجی و سیاسی شعور کی عدم موجودگی سے جنم لینے والے سیاسی و سماجی انتشار کا ناجائز فائدہ بیرونی و اندرونی سامراج اُٹھا رہا ہے۔  بیرونی سامراج سے بھی زیادہ اندرونی سامراج ہے جس کا چہرہ پہچاننا بلوچ عوام کے لیے بہت ضروری ہے۔ بلوچ عوام اپنے حقوق کی جنگ اگر کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے کے مابین موجود ڈیفرنس کو وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے باہمی حکمتِ عملی سے پُر کرکے دوسرے صوبوں کے پسے ہوئے طبقات کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر اپنے استحصالیوں کے خلاف لڑیں جو ہر صوبے میں موجود ہیں نہ کہ فرقہ واریت یا بلوچی، سندھی، پختون اور پنجابی کا تفریقی نعرہ لگا کر پسے ہوئے طبقات کی قوت کو تقسیم کریں۔ جب مقصد ایک ہوتو پسے ہوئے طبقات اس کے حصول کے لیے صوبوں کے درمیان موجود فرق کو اسی مقصد کے ذریعے پُر کرسکتے ہیں ۔

المیہ یہ ہے کہ بلوچ طبقات کے مابین پایا جانے والا ڈیفرنس اور صوبائی اور فیڈرل گورنمنٹ کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کو استحصالی سامراج اس قدر زیادہ بڑھاتا جارہا ہے کہ ایسے میں فیڈرل کا کردار دفاعی صورت اختیارکرچکا ہے۔ فیڈرل دومحاذوں پر برسرِپیکار ہے اندرونی و بیرونی کیونکہ بیرونی سامراج  اندرونی سامراج سے ہم آہنگ ہے ان کے مابین پائے جانے والے زمینی و زمانی ڈیفرنس کو ان کے مشترک مقصد کی آئیڈیالوجی نے پُر کیا ہوا ہے جو ان کے لیے کمزوری کی بجائے قوت بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر اندرونی و بیرونی سامراج اپنے مقاصد کے حصول میں کافی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ بلوچی عوام کے حقوق ان کو تبھی مل سکیں گے جب وہ خود کو رنگ و نسل کی بنیاد پر شناخت کرنے کی بجائے پسے ہوئے طبقے کے طور پر خودکو پہچان جائیں گے، بلوچ عوام اس وقت فیڈرل گورنمنٹ اور بلوچی استحصالیوں کے درمیان بری طرح سے پس رہے ہیں سب سے زیادہ نقصان بلوچی عوام کا ہورہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔