- ڈالر کی قیمت میں بڑی کمی کے ساتھ کاروباری دِن کا آغاز
- شیخ رشید ضمانت کیس میں عمران خان کو شامل تفتیش کرنے کی استدعا
- پہلے اوور میں وکٹ لینے کا طریقہ! شاہین سے جانیے، قلندرز نے فوٹو شیئر کردی
- ڈیجیٹل معیشت کی بہتری، پاکستانی اقدامات کی عالمی سطح پر پذیرائی
- یورپی ممالک کیلیے پی آئی اے پروازیں بحال ہونے کے امکانات روشن
- ایل پی جی کی قیمت میں 15روپے فی کلو مزید اضافہ
- ایم ایل ون منصوبہ،ایشیائی ترقیاتی بینک نے تعاون کی پیشکش کردی
- لائیک، شیئر اور فالوورز برائے فروخت
- سندھ ہائیکورٹ، کم سے کم تنخواہ 25 ہزار کے احکامات پر عملدرآمد کرانے کا حکم
- کراچی میں سیکیورٹی کمپنی سے 180جدید ہتھیار اور وردیاں لوٹ لی گئیں
- شہریوں سے لاکھوں روپے بٹورنے والے جعلی پولیس اہلکار گرفتار
- شین وارن کی 20.7 ملین ڈالر کی وصیت سامنے آگئی
- گلیڈی ایٹرز کے غیر ملکی کرکٹرز کی آمد ہفتے کو ہوگی
- ’’میری پرفارمنس اچھی نہیں کیویز کیخلاف سرفراز کو کھلائیں‘‘، محمد رضوان
- 43 استعفوں کی منظوری معطل؛ پی ٹی آئی ارکان پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے
- وٹامن ڈی ذیابیطس سے پہلی کیفیت کو مکمل مرض سے روک سکتی ہے
- دنیا کے سب سے بڑے ’کیک لباس‘ کی ویڈیو وائرل
- زمین کی طرح دن اور رات رکھنے والا سیارہ دریافت
- کوٹری میں پشاور سے کراچی جانے والی علامہ اقبال ایکسپریس کو حادثہ
- قصور میں پولیس کا ذخیرہ اندوزوں کے خلاف گرینڈ آپریشن، 33 کروڑ کا تیل برآمد
سرکاری مداخلت پولٹری انڈسٹری تباہ کردے گی، پی پی اے

فری مارکیٹ اکانومی ہی زیادہ بہتر ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو خط ارسال ۔ فوٹو:فائل
کراچی: پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن نے مارکیٹ مکینزم میں بے جا سرکاری مداخلت کو پولٹری انڈسٹری کیلیے تباہ کن قرار دیا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کوایک خط میں ایسوسی ایشن نے خدشہ ظاہر کیا کہ سرکاری اداروں اور حکام کی زور زبردستی مارکیٹ مکینزم کوتباہ کردیگی اور مداخلت کا خمیازہ صارفین و انڈسٹری دونوں کو بھگتنا پڑے گا اور مزید پولٹری فارمز بند ہو جائینگے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق فری مارکیٹ اکانومی ہی وہ داحد ذریعہ ہے جو پروڈیوسرز کو پیداوار بڑھانے یا کم کرنے پر مجبور کرسکتی ہے جس سے قیمتوں کا تعین ہوتا ہے، بہتر منافع پروڈیوسرز کو پیداوار میں اضافے کی جانب راغب کرتا ہے جبکہ اوورسپلائی کی صورت میں قیمت اور منافع میں کمی سے پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے، ڈیماند اور سپلائی پر مشتمل حقیقی مارکیٹ مکینزم ہی توازن پیداکرنے کا ذریعہ ہے۔
2012 میں کمشنر اینمل ہزبنڈری حکومت نے پشاور ہائیکورٹ میں ایک روز کے چوزے کی قیمت 31.27 روپے پیش کی جبکہ چوزا اس وقت 20 روپے میں فروخت ہورہا تھا، اس طرح صرف ایک روز کے چوزے پر ہی انڈسٹری کو 11.27روپے کے نقصان کا سامنا تھا۔ ایسوسی ایشن کے مطابق اصل لاگت سرکاری تخمینے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ سرکاری تخمینے میں فنانشل کاسٹ، ایڈمن اور اوورہیڈ کاسٹ، بیماریوں اور موسم کی وجہ سے مرغیوں کی ہلاکت سے نقصان کو لاگت میں شامل نہیں کیا گیا، اضافی لاگت کو نظر انداز کرکے قیمت مقرر کیے جانے سے پولٹری انڈسٹری کو فی کلو 12.10روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ایسوسی ایشن نے پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے قیمت مقرر کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جسے سپریم کورٹ نے معطل کر دیا جس پر پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ واپس لیا، اس طرح انڈسٹری کو قیمت مسلط کیے جانے کے مسئلے سے نجات مل گئی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔