بھان متی کے کنبے کا روشن پہلو

محمد مشتاق ایم اے  بدھ 16 فروری 2022
بھان متی ایک کامل عقل اور سلیقے والی عورت تھی۔ (فوٹو: فائل)

بھان متی ایک کامل عقل اور سلیقے والی عورت تھی۔ (فوٹو: فائل)

انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ A bad man is better than a bad name اور اسے اپنی زبان میں کہتے ہیں ’’بد اچھا اور بدنام برا‘‘۔

اس مقولے کی تشریح بھی کچھ مشکل نہیں، بالکل آسان ہے کہ اگر کوئی شخص برا ہے لیکن لوگوں کو اس کی برائی کے بارے میں علم نہیں ہے تو وہ اس شخص سے بہت بہتر ہے جو کہ اتنا برا ہے نہیں لیکن محلے، معاشرے اور شہر میں کسی بھی وجہ سے برا مشہور ہوگیا ہے۔ ویسے بھی ہمارا معاشرہ جو نام کے اعتبار سے تو اسلامی ہے اور ہمارے ملک خداداد کا سرکاری نام بھی ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے، یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے کہ اسلامی بھی اور جمہوری بھی۔ اب جیسے ہمارا ملک نام سے اور مشہوری سے اسلامی بھی ہے اور جمہوری بھی لیکن عملی طور پر یہاں رائج آئین اور قانون میں اسلام کا کتنا عمل دخل ہے اور یہاں جمہوری روایات کتنی مضبوط ہیں، یہ ایک قابل غور اور قابل فکر بات ہے۔

اسی طرح ہمارے ہاں ’بد اچھا اور بدنام برا‘ کے مصداق ’’بھان متی‘‘ کا بھی حشر ہوتا رہتا ہے اور اس حوالے سے جو سب سے مشہور ضرب المثل استعمال ہوتی ہے وہ بظاہر اسی بات پر دلالت کرتی ہے کہ بھان متی کو کوئی کام بھی سلیقے سے کرنا نہیں آتا اور کام کو ٹوٹے پھوٹے طریقے یا دوسرے لفظوں میں ’’جگاڑ‘‘ لگا کر کام سرانجام دینے کو بے چاری بھان متی کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔

اور وہ ضرب المثل جس نے بھان متی کو ہر جگہ بدنام کررکھا ہے وہ ہے ’’بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘۔

ہمارے ہاں یہ مثال ہر اس موقع پر دی جاتی ہے جب کسی نے کوئی کام کسی عقل کے بغیر محض کوئی جگاڑ لگا کر کیا ہو اور گویا جسے کام کا کوئی سلیقہ نہ ہو، اس کےلیے ہم بھان متی کو استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور پھر سینہ یوں چوڑا کرلیتے ہیں جیسے ہم نے بڑے پائے کا کام کیا ہے۔

ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں کتابیں پڑھنے کا رواج ویسے ہی کم ہے اور اسی وجہ سے لوگوں کی اکثریت لکیر کی فقیر بن کر کسی بھی خبر کو محض سن کر آگے پھیلانے کی اس قدر عادی ہوچکی ہے کہ اسے اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ تھوڑی دیر کےلیے یہ سوچ لے کہ ہوسکتا ہے یہ خبر درست نہ ہو اور اگر بغیر تحقیق کیے یہ بات پھیلا دی گئی تو وہ خبر کسی بے گناہ کو بدنام بھی کرسکتی ہے اور پھر کبھی کبھی اس حوالے سے کوئی خبر حقیقتاً کسی کو ایسا بدنام کرتی ہے کہ ساری عمر بھی اس بدنامی کا داغ نہیں دھو سکتا۔ اس لیے اس حوالے سے بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں بھی جب تک بھان متی کی حقیقت (جو ہم نے پڑھی) کا علم نہیں تھا ہم بھی اسے ایک جاہل، گنوار اور نااہل عورت ہی سمجھتے تھے اور یہی بات جانتے تھے کہ اس نے اپنی زندگی میں ضرور کوئی ایسا بے سلیقہ کام کیا ہے جس کی وجہ سے اب رہتی دنیا تک لوگ اس کے اس کام کی مثال دیتے رہیں گے اور ہر بے جوڑ کام کو اس کے کام کے ساتھ نتھی کرتے رہیں گے۔ لیکن ہماری آنکھیں اس دن کھلیں جب اتفاق سے بھان متی کے مختصر سے حالات کہیں پڑھنے کا موقع ملا۔ جس کے مطابق بھان متی ایک کامل عقل اور سلیقے والی عورت تھی، جس کا تعلق ہندوستان کی ریاست چتوڑ سے تھا۔ مزید یہ پتہ چلا کہ لفظ ’’بھان‘‘ کا مطلب روشنی اور شعاع ہے جب کہ لفظ ’’مت‘‘ کا مطلب عقل ہے اور اس دور میں عورت عقل اور سلیقے کا استعارہ ہوتی تھی، اسے بھان متی اور مرد کو بھان متا کہا جاتا تھا۔ لفظ ’’مت‘‘ کو ہم اپنے روزمرہ معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔ جب کوئی عقل سے عاری ہوکر کام کرے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ تمہاری تو مت ہی ماری گئی ہے۔ مطلب تمہارے اندر سے عقل کا خاتمہ ہوگیا ہے۔

کہتے ہیں کہ بھان متی اس دور میں ایک مجذوبہ قسم کی عورت تھی، مگر کافروں کے درمیان نور کا استعارہ تھی اور انتہائی عقل اور سمجھ بوجھ والی تھی۔ اس نے شادی نہیں کی تھی اور اس کے قریبی رشتے دار بھی نہیں تھے، گویا اس کا اپنا خاندان نہیں تھا۔ اس نے علاؤالدین خلجی کے دور میں اس کے ایک زیر عتاب مسلم سفیر کو اپنے ہاں پناہ دی تھی اور بیٹا بنا لیا تھا۔ اور اس کے علاوہ ایک غیر مسلم وزیر کی بیٹی کو خفیہ ایمان لانے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا، اسے بھی وہ گھر لے گئی اور اپنی بیٹی بنا لیا۔ گویا اس نے ان دونوں کو ملا کر اپنا کنبہ بنالیا اور اسی بات کو اس شہر کے لوگوں نے بھان متی کی تضحیک کا معاملہ بنالیا۔ اور ازراہ مذاق اور تفنن ’’بھان متی کا کنبہ۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘ پھبتی کستے تھے کہ بھان متی کا تو کوئی کنبہ تھا ہی نہیں اور جب کنبہ بنایا بھی تو اینٹ کہیں سے لی اور روڑا کہیں سے۔ اس سے ان کا مطلب علاؤالدین خلجی کا زیر عتاب مسلم سفیر اور ایک وزیر کی خفیہ ایمان لانے والی بیٹی تھی، جن کو بھان متی نے اپنا بیٹا اور بیٹی بنا کر کنبہ بنایا تھا۔

یہ بھی کہتے ہیں کہ بھان متی کفر کے اس دور میں توحید کی پرستار تھی اور بہت سوں سے بہت بہتر تھی لیکن اسی مقولے ’’بد اچھا اور بدنام برا‘‘ کے مصداق بے ایمان اور شیطان صفت لوگوں کی طرف سے بھان متی پر کسی گئی پھبتی کو اتنی بار استعمال کیا گیا کہ بعد میں آنے والے لوگوں کو اس واقعے کی حقیقت جاننے کی نہ ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی کسی نے یہ تکلیف گوارا کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھی کوئی کام ڈھنگ سے نہ کرے اور ادھر ادھر سے چیزیں پوری کرکے اپنا کام چلائے تو ہم فوراً کہہ دیتے ہیں ’’بھان متی نے کبنہ جوڑا۔ کہیں کہ اینٹ کہیں کا روڑا‘‘۔ حالانکہ کہاں بھان متی اور کہاں ہم بے جوڑ کام کرنے والے۔ بس اپنی نالائقی چھپانے کےلیے ہمیں کوئی نہ کوئی تو چاہیے ہوتا ہے، لہٰذا کوئی اور کیوں بھان متی ہی سہی۔

اس مثال سے ہٹ کر بھی بھان اور متی کے الفاظ کے معنی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان سے مراد روشنی اور عقل ہے تو اس دور میں جو لوگ کٹھ پتلیوں کے تماشے دکھاتے تھے تو وہ ان کے کپڑے اور دیگر ضروریات پوری کرنے کےلیے کوئی چیز کہیں سے اور دوسری کہیں سے لیتے تھے اور وہ کام انتہائی ذہانت کا ہوتا تھا۔ لیکن ان کے ادھر ادھر سے چیزیں پوری کرکے کھیل تماشا دکھانے والی عورت کو بھان متی اور مرد کو بھان متا کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی اس دور کے میلوں ٹھیلوں میں جو فنکار اپنے کرتب دکھاتے تھے وہ اس کھیل میں استعمال ہونے والی چیزوں کو مختلف جگہوں سے لے کر کھیل کا ایک نظام ترتیب دیتے تھے تاکہ لوگوں کو محظوظ کیا جاسکے اور وہ کام عقل سے عاری کسی شخص کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس دور کے عوام ایسے فنکاروں کے کام کو بھی بھان متی پر کسی گئی پھبتی سے ہی تشبیہ دیتے تھے لیکن حقیقت میں وہ لوگ اس معاشرے کے ذہین لوگ تھے اور اپنی محنت اور عقل سے روزی کماتے تھے۔

ہمارے اوپر بھی جب یہ راز کھلا تو ہم بھی یہی سمجھے کہ ہماری تو مت ہی ماری گئی تھی، اصل میں بات کیا تھی اور ہم کیا سمجھتے رہے۔ یہ ساری حقیقت معلوم ہونے پر ہمارے دل و دماغ میں بھان متی کا ایک نیا تصور قائم ہوگیا ہے جو ایک بہت روشن پہلو ہے اور ہم اس ضرب المثل کے روشن پہلو کو دیکھتے ہوئے اسے ’’بھان متی کا کنبہ۔ مثالی اینٹ اور مثالی روڑا‘‘ سے بدل دیں تو بے جا نہ ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی کرنا بے محل نہ ہوگا کہ تاریخ کی کئی ضرب الامثال کے پیچھے شاید اس طرح کی کئی حقیقتیں چھپی ہوئی ہوں جو ہماری کم علمی کی بدولت ہمیں بھی اس کے درست استعمال سے روک رہی ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔