غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا

محمد عارف میمن  ہفتہ 19 فروری 2022
حکومت تقریباً ہر میدان میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

حکومت تقریباً ہر میدان میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

’’حکومت کس کس چیز پر سبسڈی دے؟ حکومت کی اولین ترجیح کھانے پینے کی اشیا پر سبسڈی دینا ہے۔ پٹرول مہنگا ہے تو عوام کم استعمال کرے۔‘‘

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کا مضحکہ خیز بیان اس وقت سامنے آیا جب پٹرول 160 روپے فی لیٹر پر پہنچ چکا تھا۔

عوام کو کس کس چیز پر سبسڈی دی جارہی ہے، اس کا خود عوام کو بھی علم نہیں۔ روزانہ صبح اٹھتے ہی اشیائے خورونوش کے نئے نرخ سامنے آتے ہیں۔ دس کلو آٹے کا تھیلا 750 روپے، تیل 420 روپے لیٹر اور گھی 350 روپے کلو کے حساب سے مارکیٹ میں بک رہا ہے۔

حکومت کی اولین ترجیح کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرنا ہے، مگر یہاں ایسا لگتا ہے جیسے حکومت کی اولین ترجیح عوام کے منہ سے آخری نوالہ چھیننا ہے۔ پٹرول مہنگا ہے تو کم استعمال کرنے والا بیان دینے سے قبل موصوف وزیر کو سوچنا چاہیے تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ پٹرول کوئی پینے یا نہانے والی چیز نہیں، یہ ضرورت کے استعمال میں آنے والا ایندھن ہے۔ عوام بے وقوف نہیں کہ بلاضرورت ایندھن جلاتے پھریں۔ موصوف وزیر کے بیان سے ایسا لگتا ہے جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ عوام خودکشی کرنے کےلیے بھی پٹرول کا استعمال نہ کریں اور اگر کریں تو کم سے کم استعمال کرکے خود کو آگ لگائیں۔

اس طرح کے بیانات دراصل پی ٹی آئی کی پہچان بن چکے ہیں۔ کبھی یہ دو سو روپے کلو بکنے والے مٹر پانچ روپے کلو بکنے کا دعویٰ کرتے ہیں، تو کبھی حکومت میں آنے سے قبل پٹرول چالیس روپے لیٹر فروخت کرنے کا عوام کو چونا لگاتے ہیں۔ کنٹینر پر کھڑے ہوکر کرپشن ختم کرنا آسان ہے، مہنگائی ختم کرنا آسان ہے، بجلی، گیس، پٹرول مہنگا ہونے پر وزیراعظم کو چور کہنا آسان ہے۔ مگر آج جب خان صاحب خود وزیراعظم کی کرسی پر تشریف فرما ہیں تو لگتا ہے وہ سب باتیں محض مذاق میں کی گئی تھیں۔

اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر وزیراعظم نے کہا تھا کہ میں 100 دن میں کرپشن ختم کردوں گا۔ وہ سو دن کہاں گئے؟ وہ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے دعوے بھی محض پی ٹی آئی کے مذاق کا حصہ ثابت ہوئے۔

پی ٹی آئی تقریباً ہر میدان میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ معیشت کا یہ عالم ہے کہ قرض پر قرض بڑھتا جارہا ہے۔ ڈالر کی پرواز مسلسل جاری ہے، روپیہ تنزلی کا شکار ہے۔ لیکن حکومت کہہ رہی ہے کہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوچکا ہے۔ وہ کون سی شاہراہ ہے جو عوام کو نظر نہیں آرہی؟ وہ کون سی ترقی ہے جو عوام چشمہ لگا کر بھی نہیں دیکھ پارہے؟ مہنگائی نے غریب کا زندگی جہنم بنادی ہے۔ ملک میں خودکشیوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ بے روزگار نوجوان غلط راستوں پر چل پڑے ہیں، جس سے اسٹریٹ کرائم میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔ مگر حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم ترقی کررہے ہیں۔

میرے ایک دوست نے ماسٹرز کیا ہے مگر بے روزگاری کی وجہ سے وہ محض 20 ہزار روپے کی ایک معمولی نوکری کرنے پر مجبور ہے۔ گھر کے حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ وہ اکثر خودکشی کی باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ میرٹ کا قتل عام مسلسل جاری ہے، جس کا اندازہ سرکاری نوکریوں کی بندر بانٹ سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ ایسے میں حکومت کے شغلی بیان عوام کے دلوں پر جلتی کا کام کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی تین سالہ کارکردگی دیکھی جائے تو اس میں کوئی ایک ڈھنگ کا منصوبہ شامل نہیں، جو گنتی کے دو چار منصوبے مکمل کیے بھی ہیں تو یہ وہ منصوبے ہیں جو گزشتہ حکومتیں شروع کرکے گئی تھیں۔ پی ٹی آئی نے محض انڈا، مرغی، کٹا اور روٹی سالن جیسے فقیروں والے منصوبوں کا آغاز کرکے عوام کو واقعی فقیر بنادیا ہے۔

احساس پروگرام بھی غریب کےلیے نہیں بلکہ ان لوگوں کےلیے ہے جو پہلے ہی نوکری پیشہ یا اپنے کاروبار سے جڑے ہیں۔ یہاں میرٹ کا کوئی پیمانہ نہیں۔ غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ احساس پروگرام کے ذریعے اسی غریب کا حق مار کر ایک ایسے گھرانے کو بارہ ہزار (جو اب تیرہ ہزار کردیے ہیں) دیے جارہے ہیں جن کے پاس پہلے ہی آمدن کا بہترین ذریعہ موجود ہے۔ یہاں ’اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے اپنوں میں‘ والی مثال ہے۔ کامیاب نوجوان میں بھی ان لوگوں کو پہلی ترجیح پر رکھا گیا ہے جن کے پاس پہلے ہی اپنا بزنس موجود ہے، بے روزگار نوجوان کےلیے نہ پہلے کسی نے سوچا اور نہ آئندہ کبھی اس پر سوچا جائے گا۔

ملک میں نوجوانوں کی اکثریت میٹرک پاس یا مڈل پاس ہے، بعض تو بالکل ہی ناخواندہ ہیں، ان کےلیے آزادی سے لے کر اب تک کوئی منصوبہ زیر غور نہیں لایا گیا۔ اور جن کےلیے لایا گیا انہیں بھی قرض کی شکل میں محض لولی پاپ دیا جارہا ہے۔

ترقی کے نام پر ملک میں جو حشر برپا ہے اس کے روک تھام کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت میں موجود ایک سے بڑھ کر ایک فنکار اپنی حکومت کے دفاع میں لگا ہوا ہے۔ کوئی ترقی کی بات کرتا نظر آتا ہے، تو کوئی وزیراعظم کا دفاع کرنے میں مصروف ہے۔ جو زیادہ جھوٹی تقریر کرنے کا ماہر ہے اسے انعام میں سرٹیفکیٹ دینے کی پہلی مرتبہ تقریب بھی منعقد کی گئی اور اس کا پیسہ بھی عوام کی جیب سے نکالا گیا۔ عوام کی بھلائی کےلیے بلائے جانے والے اجلاس بھی یہاں آکر ختم ہوجاتے ہیں کہ اپوزیشن کو کیسے سنبھالنا ہے۔ وزیراعظم اپنی ہر تقریر میں اپوزیشن کو لازمی لتاڑتے ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری کا سارا ملبہ بھی ان ہی کے کھاتے میں ڈالنا جیسے ایک پالیسی بیان بن چکا ہے۔ لیکن یہ کبھی نہیں بتایا کہ ہم نے کیا کیا؟ ہم نے کون سے چاند تارے توڑے ہیں۔ ہم نے عوام پر ایسا کیا احسان کردیا کہ وہ انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ عوام ان نمائندوں کو پہلے پیٹھ پیچھے برا بھلا بولتے تھے، اب یہ فرق آیا ہے کہ انہیں منہ پر بھی نازیبا الفاظ سے پکارا جاتا ہے۔ گالم گلوچ اور بدکلامی کی مہم بھی پی ٹی آئی نے شروع کی تھی اس سے قبل عوام میں کچھ تہذیب تھی، لیکن اب یہ تہذیب مکمل طورپر ختم ہوچکی ہے اور اس کا شکار ان ہی کے لوگ بن رہے ہیں۔

آخر میں محض اتنا ہی کہوں گا کہ اب حکومت کے کسی وعدے پر عوام کو بھروسہ نہیں۔ دو سال کا عرصہ بھی کسی نہ کسی طرح گزر جائے گا، اس کے بعد انتخابات کا سال ہوگا۔ ایک مرتبہ پھر ملک پر وہی لوگ برسراقتدار آئیں گے جنہیں پی ٹی آئی چور اور ڈاکو کے نام سے پکارتی ہے۔ یہ چور اورڈاکو آگے چل کر ملک کو مزید کھوکھلا کردیں گے۔ لیکن یہاں کم از کم نئے پاکستان کا نعرہ نہیں ہوگا۔ یہ وہی پرانی معاشی بدمعاشی اور ہندسوں کا ہیر پھر کرکے عوام کو آئندہ پانچ سال کچھ ریلیف فراہم کریں گے۔ لیکن اس کے بعد یقیناً ملک دیوالیہ ہوچکا ہوگا۔ جس کی ذمے داری چوروں اور ڈاکوؤں پر نہیں بلکہ نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں پر عائد ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عارف میمن

محمد عارف میمن

بلاگر سولہ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں؛ اور ایک مقامی اخبار میں گزشتہ آٹھ سال سے اسپورٹس ڈیسک پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا ٹوئیٹر ہینڈل @marifmemon ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔